امریکی سینیٹ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے دوران پراسیکیوٹرز نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ٹرمپ کے خلاف واضح اور ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ انہوں نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے کے لیے اپنے حامیوں کو اکسایا تھا۔
سینیٹ میں جمعرات کو مسلسل تیسرے روز مواخذے کی کارروائی جاری رہی جس کے دوران ایوانِ نمائندگان کی پراسیکیوشن ٹیم کے مرکزی رکن جیمی راسکن نے اپنے حتمی دلائل میں کہا کہ کانگریس کی عمارت میں چھ جنوری کو جو کچھ ہوا اس بارے میں ارکان کو منطقی انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر ٹرمپ نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو اکسایا تھا جس کے بعد ہجوم نے کانگریس کی عمارت پر حملہ کیا۔ حملہ آوروں نے عمارت کی کھڑکیوں کو توڑا، افسران کو یرغمال بنایا اور محافظوں سے ہاتھا پائی کی۔
راسکن نے کہا کہ کیپٹل ہل میں ہنگامہ آرائی کے وقت ٹرمپ نے دو گھنٹے تک کچھ بھی نہیں کیا اور اس کے نتیجے میں کیپٹل پولیس کے ایک افسر سمیت پانچ افراد کی جانیں گئیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی جمہوریت کا یہ راسخ اصول ہے کہ کوئی شخص فساد برپا نہیں کرسکتا۔ لیکن ان کے بقول سابق صدر نے ہمیں دھوکہ دیا اور اپنے ملک کی حکومت کے خلاف حامیوں کو بغاوت پر اکسایا۔ اس لیے انہیں لازمی سزا ملنی چاہیے۔
SEE ALSO: ٹرمپ کا مواخذہ: میری توجہ کرونا کے خاتمے پر ہے، بائیڈنراسکن سمیت ایوانِ نمائندگان کے نو ڈیموکریٹ ارکان سابق صدر ٹرمپ کے خلاف سینیٹ میں پیش کردہ مقدمے میں استغاثہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ارکان نے جمعرات کو مسلسل دوسرے روز اپنے دلائل دیے اور دو روز کے دوران کل 12 گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کیے۔
پراسیکیوشن ٹیم نے زبانی دلائل کے علاوہ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے کی متعدد ویڈیوز اور سابق صدر کے ٹوئٹرز پر جاری کردہ بیانات کو بھی سینیٹ میں بطور شواہد پیش کیا ہے۔
'مائیک پینس کو پھانسی دو'
مواخذے کی کارروائی میں استغاثہ کی ٹیم کے مرکزی رہنما راسکن نے ایوان میں وہ ویڈیو بھی دکھائی جس میں بعض مشتعل افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ "مائیک پینس کو پھانسی دو۔"
یاد رہے کہ سابق نائب صدر مائیک پینس نے ٹرمپ کی جانب سے جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی تصدیق کا عمل روکنے کا مطالبہ نظر انداز کردیا تھا جس پر صدر ٹرمپ ان سے ناراض تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر حملہ کرنے والے بعض مشتعل افراد ایوانِ نمائندگان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی پیلوسی کو بھی تلاش کر رہے تھے۔ تاہم سیکیورٹی حکام نے نائب صدر پینس اور اسپیکر پیلوسی کو محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔
'صدر کے حکم پر عمل کر رہے ہیں'
پراسیکیوشن ٹیم میں شامل ایک رکن ڈیانا ڈی گیٹ نے دلائل کے دوران ہنگامہ آرائی میں شامل ایک خاتون کے بیان کا ویڈیو کلپ بھی دکھایا جس میں خاتون کو یہ کہتے سنا جاسکتا ہے کہ "ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ اس وقت کے صدر ٹرمپ کے کہنے پر کیا۔"
ڈیانا کے بقول باغیوں کو یقین تھا کہ انہیں صدر کی جانب سے احکامات ملے ہیں اور انہوں نے پولیس کو بھی یہی کہا کہ وہ صدر کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔
ڈیانا نے ایوان کو متعدد ٹی وی انٹرویوز بھی دکھائے جن میں مظاہرین یہ کہہ رہے تھے کہ انہوں نے کیپٹل پر اس لیے حملہ کیا ہے کیوں کہ ٹرمپ نے انہیں ایسا کرنے کو کہا۔
پراسیکیوشن ٹیم میں شامل کئی مینیجرز نے خبردار کیا کہ اگر ٹرمپ مقدمے سے بری ہوئے تو وہ 2024 میں ہونے والے صدارتی انتخابات لڑ کر مزید مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے رکنِ کانگریس ٹیڈ لیو نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے دوبارہ انتخابات لڑنے سے خوفزدہ نہیں بلکہ وہ اس پر تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر انہوں نے دوبارہ الیکشن لڑا اور ہار گئے تو وہ دوبارہ ایسا ہی کریں گے۔
ٹرمپ کے وکلا جمعے کو دفاعی دلائل دیں گے
سابق صدر ٹرمپ کے وکلا کی ٹیم جمعے سے اپنے دلائل کا آغاز کرے گی۔ ٹرمپ کے وکلا ڈیموکریٹک رہنماؤں کے الزامات کو رد کرتے ہوئے دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ سابق صدر نے ہجوم کو ہنگامہ آرائی پر نہیں اُکسایا تھا بلکہ اُنہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ انتخابی نتائج بدلنے کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
یاد رہے کہ ٹرمپ امریکہ کے واحد صدر ہیں جن کا ایوان نمائندگان میں دو بار مواخذہ ہوا ہے۔
SEE ALSO: سینیٹ نے ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی جاری رکھنے کی منظوری دے دیسو نشستوں پر مشتمل سینیٹ میں اس وقت ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے 50-50 ارکان ہیں۔ صدر کے مواخذے یا انہیں مجرم ثابت کرنے کے لیے ایوان کے دو تہائی یعنی 67 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈیموکریٹ کو سابق صدر کو مجرم ثابت کرنے کے لیے ری پبلکن جماعت کے 17 ارکان کی حمایت درکار ہوگی۔ یہ ہدف بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔