امریکہ اور روس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ؛ کیا جاننا ضروری ہے؟

  • روس کا امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ قیدیوں کا تبادلہ ایک برس تک جاری رہنے والے صبر آزما مذاکرات کا نتیجہ ہے۔
  • روس نے امریکی اور مغربی ممالک کے قید شہریوں کے علاوہ اپنی پالیسیوں کے کئی ناقدین کو بھی رہا کیا ہے۔
  • مبصرین کے مطابق قیدیوں کے تبادلے سے یوکرین جنگ کے باعث امریکہ اور روس کے درمیان کشیدہ تعلقات میں کوئی بامعنی پیش رفت نہیں ہو گی۔

امریکہ اور روس کے درمیان جمعرات کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہوا ہے۔

قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک سال سے زائد عرصے تک طویل اور صبر آزما مذاکرات ہوئے تھے جس کے نتیجے میں 24 افراد کی رہائی ہوئی ہے جن میں چار کا تعلق امریکہ سے ہے۔

اس سمجھوتے کے تحت روس کے آٹھ قیدی رہا کیے گئے ہیں۔ سرد جنگ کے بعد قیدیوں کے سب سے بڑے تبادلے کے اس معاہدے میں جرمنی اور دیگر یورپی اتحادی بھی شامل ہیں۔

جن 24 قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے ان میں بعض معروف نام ہیں اور بعض غیر معروف۔ ان میں صحافی، سیاسی اختلاف کی بنیاد پر قید سیاسی و سماجی کارکن، مشتبہ جاسوس، ایک کمپیوٹر ہیکر اور ایک جعل ساز بھی شامل ہے۔

کون کون رہا ہوا؟

روس نے جن 16 افراد کو رہا کیا ہے ان میں تین امریکی شہری اور ایک گرین کارڈ ہولڈر شامل ہیں۔

امریکہ سے تعلق رکھنے والے قیدیوں میں سب سے نمایاں نام 'وال اسٹریٹ جرنل' کے رپورٹر ایوان گیریشکووچ کا ہے جنھیں جاسوسی کے الزامات کی بنیاد پر جولائی میں 16 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ امریکی حکومت نے گیریشکووچ کے خلاف عدالتی کارروائی کو شرمناک قرار دیا تھا۔

وطن واپس پہنچنے والوں میں امریکہ کے سابق مرین اہل کار پال وہلین بھی شامل ہیں جنھیں دسمبر 2018 میں جاسوسی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور 2020 میں 16 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ امریکہ نے پال وہلین کے خلاف الزامات کی تردید کی تھی۔

قیدوں کے تبادلے میں جو صحافی روسی قید سے رہا ہوئے ہیں ان میں یو ایس گلوبل میڈیا سے وابستہ ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی کی ایڈیٹر السو کرماشیوا بھی شامل ہیں۔ انہیں روسی فوج کے خلاف غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں ساڑھے چھ برس قید کی سزا دی گئی تھی۔

ماسکو نے روس میں اپوزیشن کے نمایاں رہنما اور انسانی حقوق کے علم بردار کارا مرزا کو بھی رہا کیا ہے جنھین یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے کی بنیاد پر 25 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ کارا مرزا امریکہ کی گرین کارڈ ہولڈر ہیں۔

مغربی ممالک کے جن دیگر شہریوں کو رہا کیا گیا ہے ان میں رکو کریگر سمیت پانچ جرمن شہری شامل ہیں۔ ریکو گیر ریڈ کراس سے وابستہ میڈیکل ٹیکنیشن تھے جنھیں بیلاروس میں بغاوت کے الزام میں سزائے موت دی گئی تھی۔

اس کے علاوہ روس نے اپنے ملک میں سیاسی اختلاف کی بنیاد پر قید سات شہریوں کو بھی رہا کیا ہے۔

ان میں روسی حکومت کے ناقد الیا یاشن، یوکرین جنگ کے خلاف آواز اٹھانے والی فن کار الگزینڈرا اسکوچیلینکو، انسانی حقوق کے کارکن اور نوبیل امن انعام کمیٹی کے سابق سربراہ اولگ اولو اور روس کے اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کے دو ساتھی بھی شامل ہیں۔

مغربی ممالک کی جانب سے رہا کیے گئے روسی قیدیوں میں سب سے نمایاں نام ویدم کریسکیوو کا ہے۔ کریسکیوو 2019 میں برلن میں ایک سابق چیچن جنگجو زیلم خان کو قتل کرنے کے بعد گرفتار ہوئے تھے۔

بعدازاں 2021میں کریسکیوو کو اس قتل کے مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور وہ جرمنی ہی میں اپنی قید کاٹ رہے تھے۔ کریسکیوو نے یہ قتل بظاہر روسی سیکریٹ سروس کی ایما پر کیا تھا۔

صدر پوٹن رہا ہونے والے روسی قیدی کریسیکوو کا استقبال کر رہے ہیں۔

روس نے 2022 میں کریسکیوو اور ایک روسی اسلحہ ڈیلر وکٹر بوٹ کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ کیا تھا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق روس کریسکیو کے بدلے اپوزیشن رہنما الیکسی نوالنی کو رہا کرنے کے لیے تیار ہو گیا تھا۔ لیکن رواں برس فروری میں روس کی ایک جیل میں نوالنی کی پر اسرار حالات میں موت ہو گئی۔

اس کے علاوہ یورپی ملک سلووینیا سے روس کے دو ’سلیپر‘ ایجنٹ، امریکہ میں وفاقی قوانین کے تحت مقدمات کا سامنا کرنے والے تین زیرِ حراست، ناروے اور پولینڈ سے ایک ایک روسی قیدی کو رہا کیا گیا ہے۔

قیدیوں کے تبادلے سے روس اور امریکہ کے تعلق بہتر ہوں گے؟

یوکرین میں جنگ کے بعد سے امریکہ اور روس کے درمیان پہلے بھی قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا ہے۔

دسمبر 2022 میں امریکہ نے باسکٹ بال کی اسٹار کھلاڑی برٹنی گرینر کی رہائی کے بدلے خطرناک اسلحہ اسمگلر وکٹر بوٹ کو روس کے حوالے کردیا تھا۔

لیکن ان تبادلوں کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کوئی بامعنی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

خاص طور پر روسی صدر ولادیمر پوٹن کی جانب سے یوکرین میں جنگ روکنے سے انکار اور امریکہ کی کیف کو فوجی مدد فراہم کرنے کی وجہ سے بھی اختلافات میں شدت برقرار ہے۔

فیصلہ اس وقت کیوں؟

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ روسی صدر پوٹن نے ایک ایسے موقعے پر قیدیوں کا تبادلہ کیوں کیا ہے جب صدر بائیڈن کی الیکشن سے دستبرداری کے بعد ممکنہ طور امریکہ میں قیادت تبدیل ہوسکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پوٹن نے اس لیے بائیڈن حکومت سے یہ معاملہ طے کیا ہے کہ آئندہ حکومت کے ساتھ گفت و شنید صفر سے شروع کرنا پڑ سکتی تھی۔

SEE ALSO: امریکی۔روسی قیدیوں کا تبادلہ: بائیڈن کی روس کے 'شو ٹرائلز' کی مذمت

خبر رساں ادارے کے مطابق اس معاہدے میں جرمنی نے اہم کردار ادا کیا ہے کیوں کہ قتل کے الزام میں قید روسی شہری کریسکیوو کی رہائی کا مشکل فیصلہ اسی کو کرنا تھا۔ روس کی سب سے زیادہ دل چسپی بھی اسی قیدی کی رہائی میں تھی۔

قیدیوں کے تبادلے کے پر جرمن چانسلر اولاف شولز نے اسے بروقت اور درست فیصلہ قرار دیا ہے۔

صدر جو بائیڈن نے بھی وائٹ ہاوس سے قوم سے خطاب میں امریکیوں کی روس کی قید سے رہائی اور وطن واپسی کو ’سفارتکاری کی فتح‘ قرار دیا ہے۔

جو امریکی رہا نہیں ہوئے

اگرچہ جمعرات کو روس میں قید نمایاں امریکی رہا ہو گئے ہیں لیکن اب بھی متعدد ایسے ہیں جو رہا نہیں ہوئے ہیں۔

ان میں ایک امریکی موسیقار ٹریوس لیک ہیں جنھیں منشیات سے متعلق الزامات میں قید کیا گیا ہے۔ گورڈون بلیک نامی امریکی فوجی کو چوری اور قتل کی دھمکیوں کے الزامات میں قید کیا گیا ہے۔

دیگر امریکی قیدیوں میں ایک ٹیچر مارک فوگل منشیات اور سینیا خوانا کو بغاوت کے الزام میں قید کی سزائیں دی گئی ہیں۔

اس تحریر میں ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی معلومات شامل ہیں۔