طالبان حکومت کو کمزور کرنے والوں کی سزا موت ہے: طالبان وزیر

افغان طالبان

طالبان کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اس ہفتے افغان ججوں کے ایک اجتماع کو بتایا کہ گروپ نے طالبان یا اس کی پالیسیوں کی عوامی مخالفت کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

طالبان کے اعلیٰ تعلیم کے لیے قائم مقام وزیر ندا محمد ندیم نے قندھار میں طالبان ججوں اور اسلامی فقہاء کی گریجویشن تقریب سے اتوار کے روز خطاب کیا ۔انہوں نے کہا، ’’وہ تمام لوگ جوطالبان کی حکومت کو کمزور کرتے ہیں، چاہے اس کے لیے وہ زبان، قلم یا عملی اقدام کا سہارا لیں، وہ باغی تصور کیے جاتے ہیں اور ان کی سزا موت ہے‘‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ طالبان ان تمام لوگوں کو پسپا کر دیں گے جو ان کے بقول ’’غیر ملکیوں کے ایجنڈے کی بنیاد پر افغانستان کے لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں‘‘۔

وزیر ندیم کا یہ بیان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی اس یقین دہانی سے متصادم ہے کہ ان کی حکومت کی پالیسی تنقید کو قبول کرتی ہے اور ’’کسی بھی سوال یا اعتراض کو تحمل سے سنا جائے گا اور اس کا جواب دیا جائے گا‘‘۔

چنانچہ کون درست ہے اور عوامی اختلاف رائے سے متعلق طالبان کا سرکاری مؤقف کیا ہے؟ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ۔

حالیہ مہینوں میں طالبان کے چند ممتاز لیڈروں نے کلیدی لیڈر کی جاری کردہ کچھ سرکاری پالیسیوں سے اختلاف کیا ہے۔طالبان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ کی’’ اقتدار پر اجارہ داری‘‘ کو ہدف تنقید بنایا اور یہ بھی کہا ہے کہ ’’ صورت حال کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ تاہم اس کے باوجود پالیسی سازی کے لیے کوئی جامع اقدام نہیں کیے گئے اور طالبان کے مختلف اہل کاروں نے ایک دوسرے سے کھلم کھلا اختلاف جاری رکھا ہے۔

کیا افغانستان میں تمام سیاسی جماعتیں طالبان سے بات چیت کے لئے تیار ہیں؟

انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے سرکاری پالیسی سے متعلق کسی بھی بیان سے قطع نظر گروپ کے اقدامات سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اقلیتوں اور سیاسی مخالفوں کو دبایا گیا ہے ۔ طالبان نے ان الزامات سے انکار کیا ہے ۔

افغانستان میں انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینٹ نے گزشتہ ماہ جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان حکومت نے افغان کمیونیٹیز کو دبانے کے لیے خوف اور جبر کا استعمال جاری رکھا ہے۔ بینٹ نے کہا کہ اختلافات کے لیے برداشت بہت کم ہے جب کہ نافرمانی کو بالکل برداشت نہیں کیا جاتا۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

طالبان نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ۔ انہیں ہائی سکول یا کالج میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ۔ وہ گھر سے باہر ملازمت نہیں کر سکتیں اور نہ ہی اکیلے لمبے فاصلے تک سفر کر سکتی ہیں ۔ ان پر جم اور عوامی پارکس میں جانے پر بھی پابندی ہے ۔

ایک افغان خاتون کابل میں تعلیم پر پابندی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ فائل فوٹو

کابل میں اقوام متحدہ مشن کی سربراہ روزا اوتن باییف نے 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کہا کہ ’ ’ جہاں تک خواتین کے حقوق کا تعلق ہے تو طالبان کے زیر اقتدار افغانستان دنیا بھر میں سب سے زیادہ جبر کرنے والا ملک ہے جہاں خواتین کو روز مرہ زندگی سے الگ رکھنے کے لیے منظم اور دانستہ کی جانے والی کوششوں کو دیکھنا تکلیف دہ ہے۔‘‘

وی او اےنیوز