ایسے میں جب شامی صدر بشار الاسد کی وفادار فوجوں نے ملک کے شمالی شہر حلب کے دیہات کی جانب کارروائی کی ہے، پریشانی کے عالم میں لاکھوں لوگ ترکی کی سرحد کی جانب چل پڑے ہیں، جہاں پہلے ہی ہزاروں مہاجرین خیموں میں آباد ہیں۔
محمد علی قصبہ الباب کے طالب علم ہیں جو جنوبی ترکی میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ خاندان کے باقی ارکان کو سرحد پار کرانا چاہتے ہیں۔
بقول اُن کے ’’اس سردی میں لوگ سخت مایوسی کا شکار ہیں جب کہ ترک حکام کسی کو بھی غیرقانونی طور پر داخل نہیں ہونے دیتے۔ ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھے رہتے ہیں‘‘۔
جمعے کے دِن الباب کے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون اُس وقت ہلاک ہوئیں جب محافظوں نے اُن مہاجرین پر فائر کھول دیا جو سرحد پار کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات لندن میں قائم تنظیم ’سئرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ نے بتائی ہے۔
ترک حکام اور سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ شہریوں نے سرحد کی طرف اُس وقت رخ کیا جب حلب شہر کے شمال مغرب اور شمال میں شدید لڑائی شروع ہوئی۔
جب سے روسی فضائی حملوں میں ڈرامائی تیزی آئی ہے، جن میں دیہات ہدف بن رہے ہیں، مہاجرین کی تعداد میں اضافہ آتا جا رہا ہے، جو پچھلے تین سالوں کے دوران شامی حکومت کی حمایت میں سب سے بڑی کارروائی بتائی جاتی ہے۔
باغی کمانڈروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ حکومت نے حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ اضلاع کی رسد کاٹ دی ہے۔ ایک وقت تھا کہ حلب تجارتی دارالحکومت کہلاتا تھا اور نہایت گنجان آباد شہر تھا۔
باغی لڑاکا، ابو محمد کے بقول، ’’وہ اکیلے ہو چکے ہیں‘‘۔
ترک وزیر اعظم احمد داؤوداغلو نے اندازہ لگایا ہےکہ70000 سولین آبادی نے سرحد کا رُخ کیا ہے، جب کہ سیئرین آبزرویٹری نے یہ تعداد 40000 بتائی ہے۔