|
ویب ڈیسک—عراق میں ایران نواز عسکری گروہ کے عہدے دار نے بتایا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ جنگ پھیلنے کی صورت میں ہم حزب اللہ کے ساتھ شانہ بشانہ لڑیں گے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے گفتگو میں عہدے دار نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ اسے فوجی معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس نے مزید تفصیلات بتانے سے بھی انکار کیا۔
عراق کے ایک اور عسکری تنظیم کے کمانڈر نے ’اے پی‘ کو بتایا کہ عراق کے کچھ جنگجو پہلے ہی سے لبنان میں موجود ہیں۔
ایران کی حمایت یافتہ عسکری تنظیم کے ایک اور عہدے دار نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ حزب اللہ کی حمایت میں عراق کی پاپولر موبلائزیشن فورسز (پی ایم ایف) جنہیں قوات الحشد الشعبي کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، آ سکتی ہیں۔
ان کے بقول اس کے علاوہ افغانستان سے فاطمیون، پاکستان سے زینیون اور یمن سے ایران نواز حوثی جنگجو بھی حزب اللہ کی مدد کے لیے لبنان پہنچ سکتے ہیں۔
حزب اللہ امور سے متعلق ایک ماہر قاسم قیصر نے ’اے پی‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جاری لڑائی زیادہ تر جدید ٹیکنالوجی پر مبنی ہے جیسا کہ میزائل اور ڈرونز وغیرہ، جس کے لیے زیادہ تعداد میں جنگجوؤں کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر جنگ طول پکڑتی ہے اور لمبے عرصے تک جاری رہی تو حزب اللہ کو لبنان سے باہر کے جنگجوؤں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل بھی اس سے آگاہ ہے کہ غیر ملکی جنگجو حزب اللہ کی حمایت کے لیے آ سکتے ہیں۔
اسرائیل کی وزارتِ خارجہ کے پالیسی پلاننگ کے سابق سربراہ ایرن ایٹزیان نے جمعرات کو واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک مباحثے میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں یہ امکان بڑھ رہا ہے کہ یہ جنگ کئی محاذوں تک پھیل سکتی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تازہ جھڑپوں کے بعد علاقائی جنگ کا خدشہان کا کہنا تھا کہ اسرائیل میں حوثی اور عراقی ملیشیاؤں کی طرف سے مداخلت ہو سکتی ہے اور اسی طرح افغانستان اور پاکستان سمیت مختلف علاقوں سے بڑے پیمانے پر جہادی لبنان اور شام کی اسرائیل سے ملحق سرحدی علاقوں میں اکھٹے ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کے فوجی ترجمان ڈینئل ہگاری نے ٹیلی وژن پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حزب اللہ نے آٹھ اکتوبر 2023 کو اپنے حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک اسرائیل پر پانچ ہزار سے زیادہ راکٹ، ٹینک شکن میزائل اور ڈرونز فائر کیے ہیں۔
ہگاری کا مزید کہنا تھا کہ حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی جارحیت ہمیں ایک ایسے مقام پر لے جا رہی ہے جو ایک وسیع تر جنگ پر منتج ہو سکتی ہے جس کے لبنان اور پورے خطے پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل تمام محاذوں پر ’ایران کے بدی کے محور‘ کے خلاف جنگ جاری رکھے گا۔
حزب اللہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ بڑی جنگ نہیں چاہتے لیکن اگر ایسا ہوا تو وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
حزب اللہ کے ڈپٹی لیڈر نعیم قاسم نے گزشتہ ہفتے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جارحیت میں کسی بھی توسیع کو، چاہے وہ کتنی ہی محدود کیوں نہ ہو، اسے جواب میں اسی طرح کے ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس سے اسرائیل کو بھاری نقصان ہو گا۔
SEE ALSO: اگر جنگ شروع ہوئی تو اسرائیل میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہے گی؛ حزب اللہ کی دھمکیلبنان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی کوآرڈینیٹر جینین ہینس پلاسچرٹ اور لبنان کی جنوبی سرحد پر تعینات اقوامِ متحدہ کی امن فوج کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ارولڈو لازارو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غلط اندازوں کے نتیجے میں اچانک اور وسیع تر جنگ کا خطرہ بہت حقیقی ہے۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان آخری بڑے پیمانے کی جنگ 2006 کے موسم گرما میں ہوئی تھی جو 34 روز تک جاری رہی تھی۔ اس لڑائی میں لبنان میں تقریباً 1200 جب کہ اسرائیل میں 140 افراد مارے گئے تھے۔
جھڑپوں کا تازہ سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے لبنان میں 400 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت جنگجوؤں کی ہے۔ تاہم ان میں 70 عام شہری اور ایسے افراد بھی شامل ہیں جو جنگجو نہیں تھے جب کہ اسرائیل کے 16 فوجی اور 11 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں میں سرحد کے ساتھ آباد ہزاروں افراد کو اپنا گھربار چھوڑنا پڑا ہے۔
SEE ALSO: سینئیر کمانڈر کی ہلاکت کےجواب میں حزب اللہ کے اسرائیل پر راکٹ حملے،کیا تصادم پھیل سکتا ہے؟تجزیہ کار قاسم کہتے ہیں کہ اگر اس جنگ میں غیر ملکی بھی شامل ہو جاتے ہیں تو اس سے حزبِ اللہ کو مدد ملے گی کیوں کہ وہ ماضی میں بھی شام میں مل کر لڑ چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ محوری مزاحمتی قوتوں کے درمیان مشترکہ فوجی زبان ہے اور یہ چیز مشترکہ جنگ لڑنے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔
اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔