|
خیبر پختونخوا کی پولیس نے سوات میں توہینِ مذہب کے مبینہ مرتکب ملزم کو قتل کرنے کے واقعے میں ملوث بعض افراد کو ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ واقعے کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔
سوات کے سیاحتی قصبے مدین میں جمعرات کی شام مشتعل ہجوم نے تھانے میں گھس کر توہینِ مذہب کے مرتکب مبینہ ملزم کو پولیس کے حراست سے اپنی تحویل میں لیا اور اس کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔
قتل کے بعد مشتعل ہجوم میں شامل بعض افراد نے اس سیاح کی لاش کو آگ لگا دی تھی جب کہ اس کی لاش کو سڑک پر کافی فاصلے تک گھسیٹا گیا۔
قتل ہونے والے مبینہ ملزم کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تھا اور وہ سیاحت کے لیے سوات آیا تھا۔
سوات کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) ڈاکٹر زاہد اللہ نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات گرفتاریاں شروع ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ رات گئے متعدد افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔
پولیس کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق مدین کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف ایس ایچ او مدین اسلام الحق کے مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔
پولیس نے مقدمے میں 49 افراد کو نامزد کیا ہے جب کہ مجمعے میں شامل ڈھائی ہزار نامعلوم افراد کا بھی مقدمے میں ذکر ہے۔
حکام کے مطابق ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مختلف کاروائیوں میں نامزد ملزمان میں سے 23 کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ واقعے میں ملوث دیگر نامعلوم ملزمان کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔
مدین سے تعلق رکھنے والے صحافی احسان علی نے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کو بتایا کہ گرفتار کیے جانے والوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
ان کے بقول ایسی اطلاعات موجود ہیں جن افراد کو پولیس نے حراست میں لیا ہے متعدد کا تعلق مدین کے ایک ہی محلے سے ہے جب کہ ان میں دو بھائی بھی شامل ہیں۔
صحافی احسان علی کا کہنا تھا کہ پولیس ملزمان کی شناخت ویڈیوز کی مدد سے کر رہی ہے۔
قبل ازیں ڈی پی او نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے نو ارکان پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کا اعلامیہ جاری کیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق سوات پولیس کے ایس پی انویسٹی گیشن کمیٹی کے سربراہ ہوں گے۔
کمیٹی میں ڈی ایس پی انویسٹی گیشن اپر سوات اور ڈی ایس پی مدین کے ساتھ ساتھ سی ٹی ڈی اور آئی بی کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
مدین پولیس نے جمعے کو واقعے کا مقدمہ درج کیا تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر واقعے کی کئی ویڈیوز کی موجودگی کے باوجود فوری طور پر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی تھی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق سوات سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی فیاض ظفر نے بتایا کہ ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاح نے 18 جون کو مدین کے ایک ہوٹل میں قیام کیا تھا اور 22 جون کو ہوٹل میں پہلے سے موجود کچھ لوگوں نے شور مچا کر سیاح پر قرآن کو نذر آتش کرنے کا الزام لگایا تھا۔
فیاض ظفر کے مطابق مقتول پر توہینِ قرآن کے الزامات کے بعد پولیس اسے اپنے ہمراہ لے گئی تھی جس کے بعد مساجد اور گلیوں میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے مقامی لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے توہینِ قرآن کے اعلانات کیے گئے۔
پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران توہینِ مذہب کی بنیاد پر لوگوں پر حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور اس قسم کے بیشتر واقعات صوبۂ پنجاب سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
گزشتہ ماہ سرگودھا کے علاقے مجاہد کالونی میں مشتعل ہجوم نے 75 سالہ شخص نذیر مسیح پر توہینِ قرآن کا الزام لگا کر اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ جو تین جون کو دورانِ علاج اسپتال میں دم توڑ گئے تھے۔
پنجاب پریزن کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق صوبے کی مختلف جیلوں میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں 555 قیدی بند ہیں جن میں 537 مرد اور 18 خواتین شامل ہیں۔
قیدیوں میں سے 505 انڈر ٹرائل ہیں جب کہ ایک خاتون اور 49 مرد قیدیوں کو ٹرائل کورٹ سے سزا ہو چکی ہے۔