پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے ڈیفالٹ نہ کرنے کی یقین دہانی کے باوجود پاکستان کی خراب معاشی صورتِ حال کے پیشِ نظر ماہرین مختلف خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
پیر کو پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ خراب معاشی صورتِ حال کے باوجود پاکستان ڈیفالٹ (دیوالیہ) نہیں کرے گا۔
اگرچہ حکومت کی معاشی ٹیم دیوالیہ ہونے کے خدشات کو مسترد کرتی آرہی ہے تاہم ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر گزشتہ چار سال کی کم ترین سطح 7 ارب ڈالر تک گرگئے ہیں اور اسے بیرونی ادائیگیوں میں بظاہر مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق آئندہ سال پاکستان کے ذمے 28 ارب امریکی ڈالرز کے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں ہیں۔
حکومت قرض کی ادائیگی کیسے کرے گی؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے یقینی طور پر قرض کی بیرونی ادائیگیوں کا انتظام کررکھا ہوگا جو کہ وقت پر سامنے آجائے گا تاہم اس کے باوجود یہ مستقل حل نہیں بلکہ وقتی انتظام ہے۔
ماہر معاشی امور اور سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہت خراب اور مشکلات بہت زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود ملک دیوالیہ نہیں ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو برآمدات اور ترسیلاتِ زر کی مد میں ماہانہ چھ ارب ڈالر کے قریب حاصل ہوتے اور اگر درآمدات کو محدود کرلیا جائے تو حکومت قرض کی ادائیگی وقت پر کرتی رہے گی۔
اشفاق حسن نے کہا کہ اس سے قبل یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان سکوک بانڈر کی رقم کی واپسی نہیں کرسکے گا لیکن یہ ادائیگی وقت سے پہلے کردی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ آئندہ سہ ماہیوں میں آنے والی بیرونی ادائیگیوں کا بھی حکومت نےعالمی مالیاتی اداروں سے بندوبست کررکھا ہوگا۔
پاکستان کی خراب معاشی صورتِ حال اور اس کی وجہ سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکان پر بات کرتے ہوئے معاشی امور کے صحافی اور تجزیہ نگار مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے دوست ممالک مدد کے لیے آگے آئیں گے۔
ان کے بقول حکومت توقع رکھتی ہے کہ قرض کی فوری بیرونی ادائیگیوں کے لیے سعودی عرب سے تین ارب ڈالر کی رقم اور ادھار پر تیل کی سہولت مل جائے گی۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے بھی پیر کو پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سعودی ارب سے اضافی رقم کے حصول کے لیے بات چیت جاری ہے اور امید ہے کہ دوست ملک سے اضافی رقم جلد پاکستان کے مرکزی بینک میں آجائے گی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئندہ سال میں پاکستان کی بیرونی قرض کی ادائیگیاں 21 ارب ڈالر ہیں جب کہ تجارتی خسارے کا تخمینہ 10 ارب ڈالر کے قریب رہنے کی توقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتِ حال میں پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے اضافی 31 ارب ڈالر درکار ہیں جن کا بندوبست ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دوست ممالک سے حاصل کیے گئے قرضوں کی واپسی کی مدت میں توسیع لیتا رہا ہے اور امید ہے کہ دوست ممالک سے قرض واپسی میں سہولت مل جائے گی۔
حکومت آئی ایم ایف کے تحفظات دور کرسکے گی؟
مشکل معاشی صورتِ حال میں آئی ایم ایف کے ساتھ نویں سہ ماہی جائزے کے لیے باضابطہ مذاکرات تاخیر کا شکار ہیں جو کہ سالانہ تعطیلات کے باعث اب جنوری میں ہی ہوسکیں گے۔
وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے پیر کو پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جائزہ اجلاس کے لیے حکومت کی طرف سے مکمل تیاری ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکام نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کی وجہ سے متعدد اہداف میں نرمی کی درخواست کی ہے جب کہ عالمی مالیاتی فنڈ کا مطالبہ ہے کہ ٹیکس-جی ڈی پی تناسب کم از کم 11 فی صد ہونی چاہیے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے گزشتہ جائزہ اجلاس میں شرائط رکھی تھی اور یقین دہانی لی تھی کہ نویں جائزہ اجلاس میں اس پر عمل درآمد کی رپورٹ دی جائے گی۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی جائزہ رپورٹ میں کچھ خامیاں پائی جاتی ہیں جس پر عالمی ادارے نے کہا ہے کہ بتایا جائے کہ ان کا تدارک کیسے کیا جائے گا۔
مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ حکومت کو یہ بھی امید ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جائزہ بات چیت کی کامیابی کی صورت میں فروری میں قرض کی اگلی قسط مل جائے گی اور یوں آئندہ چند ماہ کے لیے درکار مالی ضرورت مہیا ہوجائے گی۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقتی بندوبست کے ذریعے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل ضرور جائے گا لیکن ختم نہیں ہوگا ہے اور اس صورتِ حال میں ہر کچھ عرصے بعد ایسے ہی خطرات نظر آتے رہیں گے۔