کراچی یونیورسٹی کے تین بلوچ طالب علم ’لاپتا‘ ہو گئے

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے کراچی یونیورسٹی کے تین طالب علم مبینہ طور پر لاپتا ہوگئے ہیں۔ دو مختلف واقعات میں لاپتا ہونے والے طلبہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔

گمشدہ ہونے والے دو طلبہ گمشاد بلوچ اور دودا بلوچ کے اہلِ خانہ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کی اپیل کی ہے۔

گمشاد بلوچ جامعہ کراچی میں شعبہ فلاسفی کے طالبِ علم ہیں۔

گمشاد کی چچا زاد بہن شیرین گوہرام بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سات جون کی صبح پانچ بجے سیکیورٹی فورسز نے کراچی میں گمشاد کے گھر سے انہیں اس وقت لاپتا کیا جب وہ اپنے دوست دودا بلوچ کے ہمراہ امتحانات کی تیاری میں مصروف تھے۔

انہوں نے بتایا کہ گمشاد کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے مند سے ہے اور وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کراچی میں مقیم تھے۔

شیرین کا کہنا تھا کہ گمشاد بلوچ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں اور ان کی گمشدگی کا سن کر ان کی والدہ مسلسل رو رہی ہیں اور غم سے نڈھال ہیں۔

شیرین نے بتایا کہ کراچی میں گمشاد بلوچ کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرانے کے لیے پولیس سے رابطہ کیا گیا مگر تاحال مقدمہ درج نہیں کیا جا رہا۔

انہوں نے بتایا کہ گمشاد نے اس سے قبل خاندان کے کسی فرد کے ساتھ کسی خدشے کو اظہار نہیں کیا کہ انہیں کسی کی جانب سے تنگ کیا جا رہا ہے وہ ہر وقت اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔


گمشاد بلوچ کے ہمراہ دوسرے طالب علم کا نام دودا بلوچ بتایا جارہا ہے۔ شیریں نے بتایا دودا بلوچ جگر کے مرض میں مبتلا تھے اور ایک ہفتہ قبل ان کا آپریشن ہوا تھا جس کے بعدانہیں ڈاکٹرز نے آرام کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

دودا بلوچ بھی کراچی یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور ان کا تعلق بھی بلوچستان کے علاقے تربت سے بتایا جاتا ہے۔

جامعہ کراچی ہی کے ایک اور طالب علم کلیم اللہ نور کے اہلِ خانہ نے بھی اُن کے لاپتا ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

کلیم اللہ نور کے خاندانی ذرائع نے بتایا کہ انہیں سات جون کو شب دو بچے کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز نے لاپتا کیا۔

کلیم اللہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تمپ سے ہے۔ وہ کافی عرصے سے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے کراچی میں مقیم تھے اور کراچی یونیورسٹی میں شعبہ سوشیالوجی میں ایم اے کے طالبِ علم ہیں۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلاسفی کے طلبہ نے شعبے کے چیئرمین کے نام ایک خط لکھا ہے جس میں گمشاد بلوچ اور دودا بلوچ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

خط میں موؐقف اخیتار کیا گیا ہے کہ ان دونوں طلبہ کو مسکن چورنگی کے قریب ان کی رہائش گاہ سے مبینہ طور پر خفیہ اداروں کے اہل کاروں نے جبری طور پر حراست میں لیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

بلوچستان: لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پیدل مارچ

لاپتا افراد کی تنظیم کا ردِ عمل

کراچی یونیورسٹی سے تین طلبہ کی مبینہ طور پر جبری گمشدگی پر جہاں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر عوام اور مختلف تنظیموں نے شدید ردِعمل کا اظہار کیا وہیں بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم "وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز" نے بھی ان واقعات کی مذمت کی ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا حالیہ سلسلہ تشویش ناک ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں لاہور، کراچی، اسلام آباد اور ملتان کی جامعات میں سینکڑوں بلوچ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔

26 اپریل کو بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے وابستہ شاری بلوچ کے کراچی یونیورسٹی میں خود کش حملے میں تین چینی اساتذہ ہلاک ہو گئے تھے۔ حملے کے بعد لاہور سمیت ملک کی مختلف جامعات میں زیرِ تعلیم بلوچ طلبہ کے خلاف کریک ڈاؤن کی شکایات سامنے آئی تھیں۔

نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ ریاستی اداروں سے بار بار یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر کسی پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے بلوچ طلبہ عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں اور اُنہیں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی بھی وقت اُنہیں بھی اُٹھا لیا جائے گا۔

حکومت کا مؤقف کیا ہے؟

دوسری جانب لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے 31 جنوری 2022 تک لاپتا افراد کے 6163 کیسزنمٹائے۔ کمیشن کو 31 دسمبر 2021 تک مجموعی طور پر 8381 کیسزموصول ہوئے تھے جب کہ جنوری میں مزید 34کیس موصول ہوئے جس کے بعد کیسز کی تعداد 8415 ہو گئی ہے۔

دوسری جانب سیکیورٹی ذرائع کا لاپتا افراد کی جبری گمشدگیوں کے حوالے سے مؤقف ہے کہ اکثر لاپتا افراد بیرون ملک فرار ہوچکے ہیں اور بعض نے کالعدم عسکریت پسند تنظیموں میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد سے خود روپوش ہوئے ہیں۔ اس لیے ان کے لواحقین کے سیکیورٹی فورسز پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورۂ کوئٹہ کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ لاپتا افراد کے مسئلے کو خلوص نیت سے حل کریں گے۔