کووڈ19 سے بچاؤ کے لیے تین ویکسینز کو ہی کیوں ترجیح دی جارہی ہے؟

نیو یارک کے علاقے مین ہیٹن میں ایک موبائیل ویکسین کلینک کا بیرونی منظر ۔ نیویارک کے مئیر بلاسیو نے تمام مقامی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ملازمین سے ویکسین کی پابندی لازمی کروائیں ۔ 6 دسمبر2021۔ فوٹو اے پی

دنیا بھر میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے اپنی زندگیوں سے محروم ہو چکے ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ بہت سے ملکوں کو ایک بار پھر اس عالمگیر وبا کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وبا کے خلاف بہترین دفاع ویکسین سے ہی ممکن ہے۔

اس وبا کے متعلق پہلی بار انکشاف 2019 کے آخر میں چین کے ایک شہر ووہان میں ہوا تھا، جس کے بعد سے پوری دنیا کے سائنس دان 'سارس کوو وی2 'نامی وائرس پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ سانس کی شدید بیماری کووڈ-19 کا سبب بننے والے اس وائرس کو' کرونا وائرس 2 ' کا نام اس لیے دیا گیا تاکہ اسے 2003 میں پھیلنے والے 'سارس وائرس' سے الگ شناخت دی جا سکے۔

تاریخی اعتبار سے سائنس دان ویکسین بنانے کے لیے ایک انتہائی کمزور ایسے زندہ وائرس کا استعمال کرتے ہیں جو دوبار پیدا ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا پھر اس کی بجائے مردہ وائرس استعمال کیا جاتا ہے۔ جب یہ کمزور یا مردہ وائرس انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے تو جسم کا مدافعتی نظام اسے دشمن سمجھ کر اس کے خلاف مقابلے کے اینٹی باڈیز تیار کرتا ہے۔

پولیو ویکسین کی تیاری میں بہت زیادہ کامیابی کے ساتھ کمزور زندہ وائرس یا مردہ وائرس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پولیو کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر چلائی جانے والی مہم 'گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشیٹو' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1988 میں پولیو کے خاتمے کے لیے شروع کی جانے والی اس مہم کے نتیجے میں 2021 میں پولیو کے کیسز میں 99 اعشاریہ 9 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

SEE ALSO: نیا وائرس کووڈ-19 سے زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے، ماہرین

اس سال 6 دسمبر تک دنیا بھر میں پولیو میں مبتلا ہونے والے صرف تین بچے رپورٹ ہوئے ہیں۔

اس وقت کووڈ-19 کے خلاف جو ویکسینز استعمال ہو رہی ہیں، ان میں سے تین 'ویکٹر ویکسین' کہلاتی ہیں۔ ویکٹر ترسیل کا ایک خاص نظام ہے۔ اس میں سائنس دان زندہ یا مردہ وائرس کی بجائے اس کا کوئی ٹکڑا یا کوئی حصہ استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرونا وائرس کی ویکسین میں استعمال کیا جانے والا ٹکڑا، وائرس کی بیرونی سطح پر ہوتا ہے جسے اس کا تاج بھی کہتے ہیں۔ جب اسے کسی جسم میں داخل کیا جاتا ہے تو جسم کا مدافعتی نظام اسے وائرس سمجھ کر اس کے خلاف مقابلے کے لیے اینٹی باڈیز تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔

وائرس کے اس ٹکڑے میں کسی کو کرونا وبا میں مبتلا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔

آکسفورڈ-ایسٹرا زینیکا کی ویکسین میں انسان کی بجائے چیمپنزی کا وائرس استعمال کیا گیا ہے۔ جانسن اینڈ جانسن اور اسپوتنک وی ویکسین میں انسانی وائرس استعمال کیا جاتا ہے۔ جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی تیاری میں سانس کی بیماریوں کا سبب بننے والے وائرس کو استعمال کیا جاتا ہے۔

برازیل میں طالبات کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جا رہی ہے۔ 26 اگست 2021

جانز پاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں سانس کی بیماریوں کی ایک ماہر پروفیسر ڈاکٹر اینڈریا کاکس کہتی ہیں کہ ہمارا جسم جب سانس کی بیماریوں کے وائرس کے خلاف متحرک ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کرونا وائرس کے خلاف بھی مدافعت رکھتی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت نے ایسٹرا زینیکا اور جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ ویکسین کے استعمال کی اجازت دی ہے جب کہ روس کی سپوتنک وی کو منظور نہیں کیا گیا۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ سپوتنک وی کو مزید انسانی تجربات کر کے مزید ڈیٹا اکھٹا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سپوتنک وی کی دوسری خوراک کا نظام اس کی پہلی خوراک سے مختلف ہے۔

ویکسین کی تقسیم سے متعلق ایک ادارے کوویکس کا کہنا ہے کہ ایسٹرازینیکا اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کو دی جا چکی ہے اور سائنس دانوں کے پاس اس کے مدافعتی ردعمل کے بارے میں بہت سا ڈیٹا موجود ہے، جب کہ سپوتنک وی کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

کچھ سائنس دانوں کو توقع ہے کہ کووڈ-19 تین سے چار سال تک ہمارے درمیان رہ سکتا ہے، جب کہ سائنس دانوں کو یہ فکر بھی ہے کہ جب یہ وائرس ایسے افراد کو متاثر کرتا ہے جنہیں ویکسین نہ لگی ہو تو یہ امکان موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنی جینیاتی ہیئت تبدیل کر لے۔ جس سے یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ شاید نئی جینیاتی قسم ویکسین کو غیر مؤثر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

Your browser doesn’t support HTML5

'کرونا کی نئی قسم سب سے پہلے بچوں اور صحت مند افراد پر اثر انداز ہوئی'

اب جب کہ افریقہ میں ظاہر ہونے والے کرونا وائرس کی نئی جینیاتی قسم اومکرون کی کئی ملکوں میں موجودگی رپورٹ ہو چکی ہے، اس کے پھیلنے کی تیز رفتار کے باعث سائنس دانوں اور حکومتوں کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔

برطانیہ کے وزیر اعظم نے اپنے وزرا سے بات کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اب تک حاصل ہونے والی معلومات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کرونا وائرس کی نئی جینیاتی ہیئت اومکرون، ڈیلٹا کی نسبت زیادہ تیزی سے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے منگل کے روز کابینہ کے وزرا کی ایک ٹیم کو بتایا کہ ابتدائی اشارے اس جانب نشاندہی کرتے ہیں کہ اومکرون، کرونا وائرس کی اس سے قبل ظاہر ہونے والی جینیاتی قسم 'ڈیلٹا' کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔

جانسن کے ترجمان نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، "وزیراعظم نے کہا ہے کہ اومکرون کی خصوصیات کے بارے میں اس وقت کوئی نتیجہ اخذ کرنا قبل از وقت ہے۔ لیکن ابتدائی اشارے یہ ہیں کہ وائرس کی یہ قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔"