تبتی باشندوں کے حقوق کےلیے سرگرم ایک تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ تبت پر چین کے اقتدار کے خلاف بطورِ احتجاج ایک اور شخص نے خودسوزی کرلی ہے۔
تبتی باشندوں کے حقوق کےلیے سرگرم ایک تنظیم نے دعویٰ کیا ہے کہ تبت پر چین کے اقتدار کے خلاف بطورِ احتجاج ایک اور شخص نے خودسوزی کرلی ہے۔
یاد رہے کہ تبت پر چین کے اقتدار کے خلاف بطورِ احتجاج رواں ہفتے خود سوزی کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران میں 50 کے لگ بھگ تبتی باشندے اس انوکھی احتجاجی تحریک کے زیرِ اثر مختلف علاقوں میں برسرِ عام خود کو نذرِ آتش کرچکے ہیں۔
لندن میں قائم تنظیم 'فری تبت' کے ڈائریکٹراسٹیفنی برگٹن نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ خود کو آگ لگانے والا شخص تبتی خانہ بدوش تھا جس نے چین کے جنوب مغربی صوبے سیچوان کے قصبے مروما میں خود سوزی کی۔
مقتول کی شناخت 24 سالہ جوپا کے نام سے ہوئی ہے۔ تنظیم کی سربراہ کےمطابق واقعے کے فوری بعد حکام نے چینی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار وں کی بڑی تعداد قصبے میں تعینات کردی تھی۔
اس سے قبل 'فری تبت' نے رواں ہفتے کے آغاز میں اطلاع دی تھی کہ چین کے صوبے گانسو میں ایک خانقاہ کے باہر ایک خاتون نے خود کو آگ لگا کر ہلاک کرلیا ہے۔ تنظیم کے مطابق متوفیہ دو بچوں کی ماں تھی۔
بعد ازاں صوبہ سیچوان ہی کی ایک خانقاہ سے منسلک 21 سالہ بھکشو نے بھی بطورِ احتجاج خودسوزی کی کوشش کی تھی تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بروقت مداخلت سے اس کی جان بچالی گئی ہے۔
'فری تبت' تنظیم کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ خودسوزیوں پر مشتمل اس احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبتی باشندے خود کو درپیش مشکلات سے بیرونی دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے "یہ انتہائی قدم" تک اٹھانے پر مجبور ہورہے ہیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس احتجاج کا چین کی حکومت پر شاید ہی کوئی اثر پڑ رہا ہو۔
چینی حکومت پہلے ہی خودسوزیوں کی ان کاروائیوں کو وحشیانہ اور دہشت گرد کاروائیاں قرار دے چکی ہے اور یہ قدم اٹھانے والوں کو معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے اور مجرم افراد گردانتی ہے۔
چین کا الزام ہے کہ تبتی باشندوں کی بیرونِ ملک قائم تنظیمیں اور تبت کے بدھ باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما تبت کی علیحدگی کی تحریک کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ تبت پر چین کے اقتدار کے خلاف بطورِ احتجاج رواں ہفتے خود سوزی کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران میں 50 کے لگ بھگ تبتی باشندے اس انوکھی احتجاجی تحریک کے زیرِ اثر مختلف علاقوں میں برسرِ عام خود کو نذرِ آتش کرچکے ہیں۔
لندن میں قائم تنظیم 'فری تبت' کے ڈائریکٹراسٹیفنی برگٹن نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا ہے کہ خود کو آگ لگانے والا شخص تبتی خانہ بدوش تھا جس نے چین کے جنوب مغربی صوبے سیچوان کے قصبے مروما میں خود سوزی کی۔
مقتول کی شناخت 24 سالہ جوپا کے نام سے ہوئی ہے۔ تنظیم کی سربراہ کےمطابق واقعے کے فوری بعد حکام نے چینی فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے اہلکار وں کی بڑی تعداد قصبے میں تعینات کردی تھی۔
اس سے قبل 'فری تبت' نے رواں ہفتے کے آغاز میں اطلاع دی تھی کہ چین کے صوبے گانسو میں ایک خانقاہ کے باہر ایک خاتون نے خود کو آگ لگا کر ہلاک کرلیا ہے۔ تنظیم کے مطابق متوفیہ دو بچوں کی ماں تھی۔
بعد ازاں صوبہ سیچوان ہی کی ایک خانقاہ سے منسلک 21 سالہ بھکشو نے بھی بطورِ احتجاج خودسوزی کی کوشش کی تھی تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بروقت مداخلت سے اس کی جان بچالی گئی ہے۔
'فری تبت' تنظیم کی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ خودسوزیوں پر مشتمل اس احتجاج سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبتی باشندے خود کو درپیش مشکلات سے بیرونی دنیا کو آگاہ کرنے کے لیے "یہ انتہائی قدم" تک اٹھانے پر مجبور ہورہے ہیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس احتجاج کا چین کی حکومت پر شاید ہی کوئی اثر پڑ رہا ہو۔
چینی حکومت پہلے ہی خودسوزیوں کی ان کاروائیوں کو وحشیانہ اور دہشت گرد کاروائیاں قرار دے چکی ہے اور یہ قدم اٹھانے والوں کو معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے اور مجرم افراد گردانتی ہے۔
چین کا الزام ہے کہ تبتی باشندوں کی بیرونِ ملک قائم تنظیمیں اور تبت کے بدھ باشندوں کے روحانی پیشوا دلائی لاما تبت کی علیحدگی کی تحریک کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔