چین کی ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک نے گزشتہ برس تین ماہ میں کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزیوں پر 60 لاکھ سے زائد پاکستانی ویڈیوز اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا ئی تھیں۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ( پی ٹی اے) کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کی تمام ویب سائٹس کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اگر کوئی ادارہ قابل اعتراض مواد خود ضائع کر دیتا ہے تو یہ بہتر اقدام ہے۔
انٹرنیٹ فریڈم سے متعلق کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ’بائٹس فار آل‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹک ٹاک کو ایک سال میں چار مرتبہ بلاک کیا گیا جس کی وجہ سے وہ پاکستان میں مواد کے حوالے سے حساس ہے۔
سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کی جانب سے جاری تازہ ترین کمیونٹی گائیڈلائنز انفورسمنٹ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ جن ممالک کی ویڈیوز ڈیلیٹ کی گئیں ان میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے جہاں خلاف ورزی پر پچھلے سال جولائی سے ستمبر تک 60 لاکھ سے زائد ویڈیوز ہٹا دی گئی تھیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جولائی سے ستمبر 2021 کے دوران کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی پر ٹک ٹاک کی طرف سے دنیا بھر میں نو کروڑ ویڈیوز ڈیلیٹ کی گئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ کے مطابق پاکستان سے 73.9 فی صد مواد ہراساں کرنے سے متعلق اور 72.4 فی صد مواد نفرت کو بڑھانے جیسی وجوہات کی بنا پر ڈیلیٹ کیا گیا ہے۔
جن ممالک میں سب سے زیادہ ویڈیوز ہٹائی گئیں ان میں امریکہ میں ایک کروڑ 39 لاکھ، انڈونیشیا میں 68 لاکھ 81 ہزار، برازیل میں 61 لاکھ 73 ہزار اور پاکستان میں 60 لاکھ 19ہزار سے زائد ویڈیوز ٹک ٹاک سے ڈیلیٹ کی گئیں۔
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ ڈیلیٹ کی گئی 95 فی صد ویڈیوز ایسی ہیں جنہیں پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کیے جانے کے بعد بغیر کسی صارف کی شکایت کے ہٹایا کیا گیا۔ 88 فی صد ویڈیوز کو کسی کے دیکھنے سے پہلے ڈیلیٹ کیا گیا جب کہ 93 فی صد ویڈیوز کو اپ لوڈ ہونے کے 24 گھنٹے کے اندر ہی ہٹا دیا گیا تھا۔
اس بارے میں ترجمان پی ٹی اے خرم مہران نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے اور عوام کو نفرت انگیز اور قابل اعتراض مواد سے بچانے کے لیے مختلف سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ مسلسل رابطہ رہتا ہے اور اب تک پی ٹی اے کے کہنے پر بھی کئی کمپنیوں نے قابلِ اعتراض مواد کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹایا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کمپنی کی طرف سے قابلِ اعتراض مواد اٹھانے کو بہتر اقدام قرار دیا اور کہا کہ اس سے انٹرنیٹ کے مثبت استعمال میں اضافہ ہو گا۔
بائٹس فار آل کے ہارون بلوچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹک ٹاک کو ایک سال کے دوران پاکستان میں چار مرتبہ بلاک کیا گیا۔ جب بھی ٹک ٹاک کو بلاک کیا جاتا ہے اس سے اظہارِ رائے پر پابندی کے ساتھ ساتھ کمپنی کو مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہارون بلوچ نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کا دباؤ لگاتار ٹک ٹاک پر موجود ہے۔ ان کے بقول پروینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) گزشتہ کچھ عرصے میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا رہا ہے جب کہ سوشل میڈیا رولز کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے۔ حکومت ان قوانین کو استعمال کرتے ہوئے کمپنیوں کو دباؤ میں لا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی سطح پر مختلف کنونشنز پر دستخط کیے ہیں جن کے مطابق پاکستان نے قوانین کو عالمی قوانین کے مطابق بنانا ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے سوشل میڈیا کنٹرول کے لیے پاکستان نت نئے قوانین بنا رہا ہے جس سے مختلف سوشل میڈیا کمپنیاں دباؤ میں ہیں۔
پاکستان کی حکومت متعدد بار مبینہ طور پر قابل اعتراض مواد کی وجہ سے ٹک ٹاک کو بلاک کر چکا ہے۔ آخری بار اکتوبر 2021 میں ٹک ٹاک پر پابندی عدالتی حکم پر ختم ہوئی تھی۔