شمالی کوریا نے اپنے جوہری اور میزائل پروگرام پر بات چیت میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ یہ بات ہفتے کے روز امریکی محکمہ خارجہ نے بتائی ہے، جس سے قبل وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے تسلیم کیا تھا کہ امریکہ کے شمالی کوریا کے ساتھ براہِ راست رابطہ ہے۔
ایک بیان میں خاتون ترجمان، ہیدر نوئرٹ نے کہا ہے کہ ''شمالی کوریا کے اہل کاروں نے کوئی عندیہ نہیں دیا کہ اُنھیں بات چیت میں دلچسپی ہے یا جوہری ہتھیاروں کی تخفیف پر بات چیت کے لیے تیار ہیں''۔
حالانکہ، ترجمان نے کہا کہ ''اُن کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ امریکہ کو موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لیے مدد دینے میں کوئی دلچسپی نہیں، ہم حکومت کی تبدیلی کے لیے کوشاں نہیں، جزیرے کو دوبارہ متحد کرنے کے کام کو تیز نہیں کر رہے یا ہتھیاروں سے پاک (ڈی ملیٹرائزڈ زون) کے شمال میں افواج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں''۔
اس سے قبل وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے بتایا تھا کہ امریکہ نے شمالی کوریا سے براہِ راست رابطے کا راستا نکال لیا ہے اور اس بات کا جائزہ لیا جارہا ہے آیا کم جونگ اُن کی حکومت اپنے جوہری ہتھیاروں کی راہ ترک کرکے بات چیت میں دلچسپی رکھتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے بات ہفتے کے روز بیجنگ میں بتائی جہاں وہ عوامی جمہوریہ کوریا کے خلاف مہم میں چین کے تعاون سے ''انتہائی دبائو'' ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹلرسن نے کہا ہے کہ امریکہ اس بات کا جائزہ لے رہا ہے آیا شمالی کوریا مکالمے میں دلچسپی رکھتا ہے، اور انکشاف کیا کہ دونوں ملک گفتگو کرتے ہیں۔
چین کے صدر شی جن پنگ اور دیگر اہل کاروں سے ملاقات کے بعد، وہ ہفتے کے روز بیجنگ میں صحافیوں کے ایک چھوٹے گروپ کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔
ٹلرسن نے کہا کہ امریکہ کسی اندھیرے میں نہیں اور شمالی کوریا کے ساتھ اُس کے اپنے رابطے ہیں۔
ٹلرسن نے کہا کہ ''ہم اس بات کو دیکھ رہے ہیں، اس لیے تسلی رکھیں۔ ہم براہ راست اپنے چینلز کے ذریعے اُن سے بات کرتے ہیں، ہم اُن سے گفتگو کرتے ہیں۔''
یہ معلوم کرنے پر کہ وہ کس معاملے پر بات کرتے ہیں، ٹلرسن نے کہا، "ہم یہی پوچھتے ہیں: کیا بات کرنا پسند کروگے؟"
امریکہ اور شمالی کوریا دیگر حکومتوں یا سابق اہل کاروں کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے طرز کی بات کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کے باہمی عمل کے بارے میں ٹلرسن کا یہ بیان بالکل واضح ہے، جو انتہائی تنائو کی صورت حال سے دوچار رہے ہیں، جب دونوں ملکوں کے درمیان لفظی جنگ جاری رہی۔