ٹائٹینک کے حادثے کو 99 سال گزر گئے

ٹائٹینک کے حادثے کو 99 سال گزر گئے

بحری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ ٹائٹینک کے ساتھ پیش آیا تھا جس کے نتیجے میں پندرہ سو سے زیادہ افراد بحراوقیانوس کےیخ پانی میں ڈوب کرموت کے منہ میں چلے گئے۔حادثے کی بظاہر وجہ سمندر میں تیرتی ہوئی ایک برفانی چٹان سے جہاز کی ٹکر تھی ۔ لیکن اس ٹکر کوممکن بنانے میں اصل کردار انسانی غفلت کا تھا۔

15 اپریل دنیا کے سب سے بڑے بحری حادثے کی یاد دلاتا ہے جس میں 15 سو سے زیادہ افراد ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ حادثہ تاریخ میں ٹائیٹنک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 1912ء میں پیش آنے والے اس حادثے کو اب 99 برس ہوچکے ہیں اور بحر اوقیانوس کی تہہ میں تقریباً دو میل کی گہرائی میں پڑے جہاز کے ٹکڑے زبان خاموش سے کئی ان کہی داستانیں سنا رہے ہیں جن میں ہمارے لیے کئی سبق بھی ہیں۔

ٹائٹینک اپنے زمانے کا سب سے بڑا مسافر بردار بحری جہاز تھا جس پر 36 سو مسافروں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ جب وہ اپنے پہلے سفر پر روانہ ہوا تو اس پر 2223 مسافر سوار تھے۔ تاہم بعض تاریخ دانوں نے یہ تعداد 2227 بتائی ہے۔

ٹائٹینک کی تعمیر 1907ء میں شمالی آئرلینڈ کے بحری جہازوں کے تعمیراتی مرکز بلفاسٹ میں 1907ء میں شروع ہوئی۔ یہ جہاز وائٹ اسٹار لائن کی ملکیت تھا جس نے ایک ساتھ تین بڑے بحری جہاز اولمپک، ٹائٹینک اور گیگانٹک بنانے کا آرڈر دیا تھا۔ بعد میں گیگانٹک کا نام بدل کر برٹینک رکھ دیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران برٹینک بحری اسپتال کے طور پر استعمال ہوا۔ مگر ٹائٹینک کی طرح بدقسمتی اس کے بھی تعاقب میں تھی اور اپنی سمندری زندگی کے صرف دو سال بعد1914ء میں وہ ایک بارودی سرنگ سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔

ٹائٹینک کے ابتدائی ڈیزائن میں اس پر جان بچانے والی 32 کشتیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی مگربعد میں اسے بہت محفوظ بحری جہاز تصور کرتے ہوئے یہ تعداد گھٹا کر20 کردی گئی۔ ایک اور رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ کمپنی نے کشتیاں کم کرنے کے لیے قانونی سقم سے فائدہ اٹھایا۔ کشتیاں گھٹانے کا ایک اور مقصد جہاز کے عرشے کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا بھی تھا۔

ٹائٹینک کی لمبائی 883 فٹ تھی۔ اور یہ دنیا کا پہلا ایسا بحری جہاز تھا جس پر سوئمنگ پول، جمنیزیم ، لائبریری اور تفریح کے دیگر لوازمات بھی موجود تھے۔

جہاز کے ابتدائی ڈیزائن میں تین چمنیاں تھیں مگر بعد میں خوبصورتی کے پیش نظر اس میں ایک کا اضافہ کر کے چمنیوں کی تعداد چار کردی گئی۔ ایک فلم میں اس کی چاروں چمنیوں سے دھوئیں کے گہرے بادل بلند ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جہاز کے انجن روم سے صرف تین چمنیاں منسلک تھیں اور چوتھی چمنی دھوئیں کے لیے نہیں تھی۔

ٹائٹینک 10 اپریل 1912ء کو اپنے پہلے اور آخری سفر پر برطانیہ کی بندگاہ ساؤتھ ہمشائر سے نیویارک کےلیے روانہ ہوا۔ اس سفر سے کچھ پہلے ماہرین نے کارکردگی کے جائزے کی غرض سے اسے کچھ وقت کے لیے سمندر میں چلاکر دیکھا اور فٹنس کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ ایک مورخ جوٹریسی کا کہنا ہے کہ تجرباتی سفر کے دوران جہاز پر نصب دوربینیں کہیں ادھر اُدھر ہوگئیں اور جب ٹائینک نیویارک کے لیے روانہ ہوا تو اس پر دوربینیں موجود نہیں تھیں۔ ٹریسی کا کہنا ہے کہ اگر دوربینیں موجود ہوتیں تو آئس برگ کا پہلے سے پتا چل سکتا تھا اور ممکنہ طور پر ٹائٹانک کو تاریخ کی سب سے زیادہ ہلاکت خیزی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

جہاز کے عملے کو ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کی کبھی کوئی تربیت نہیں دی گئی تھی۔

ٹائٹینک کے پہلے سفر میں نیویارک کے لیے درجہ اول کا کرایہ 4500 جب کہ تیسرے درجے کا صرف 30 ڈالر تھا لیکن اس کے تھرڈ کلاس کے کیبن اپنے ہم عصر دوسرے بحری جہازوں کے درجہ اول کے کمروں سے زیادہ پر آسائش تھے۔

جب ٹائٹینک نے اپنے سفر کا آغاز کیا تو سمندر پرسکون تھا تاہم 14 اپریل کی رات کو بحراوقیانوس کے اس حصے میں درجہ حرارت صفر سے گرگیا۔ اسی رات ایک اور بحری جہاز نے وائرلیس پر ٹائٹینک کو سمندر میں تیرتی ہوئی برفیلی چٹان (آئس برگ) کی اطلاع دی۔ بعض مورخوں کے مطابق یہ اطلاع کم ازکم چھ بار دی گئی۔ ٹائٹینک پر وائرلیس کا انتظام مارکونی وائرلیس کمپنی کے پاس تھا اور اس کے آپریٹر کو زیادہ دلچسپی درجہ اول اور دوم میں سفر کرنے والے مسافروں کے پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے میں تھی۔ چنانچہ اس نے نہ صرف آئس برگ سے متعلق پیغامات نظرانداز کیے بلکہ آخر میں تو اس نے پیغام بھیجنے والے آپریٹر کو سختی سے ڈانٹ بھی دیا۔

آئس برگ کی خبر کپتان اسمتھ کو اس وقت ہوئی جب جہاز اس کے انتہائی قریب پہنچ چکا تھا۔ اس وقت ٹائٹینک تقریباً 25 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہا تھا۔ اسمتھ نے پوری قوت سے جہاز کا رخ تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ مگر اس کی رفتار زیادہ تھی اور فاصلہ کم۔ چنانچہ آئس برگ جہاز کے درمیانی حصے سے ٹکراگیا جس سے اس میں تقریباً تین سوفٹ کا شگاف پڑگیا اور جہاز میں تیزی سے پانی بھرا شروع ہوگیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر جہاز سیدھے رخ آئس برگ سے ٹکراتا تو نقصان انتہائی کم ہوتا اور ممکنہ طورپر وہ ڈوبنے سے بھی بچ جاتا۔

جہاز کی ساخت ایسی رکھی گئی تھی کہ نچلی چار منزلیں ڈوب جانے کی صورت میں بھی وہ تیر سکتا تھا مگر جب چوتھی منزل میں پانی داخل ہونا شروع ہوا تو عملے کو خطرے کی سنگینی کا احساس ہوا اور وائرلیس پر مدد کے پیغامات نشر کیے گئے۔

ٹائٹینک مدد کے لیے پیغامات نشر کرنے والا دنیا کا پہلا بحری جہاز تھا جس نے "S.O.S." اور "C.Q.D." (Come Quick, Danger یعنی خطرہ ، فوراً مدد کو آئیں، کے پیغامات نشر کیے۔ مورخوں کے مطابق آئس برگ کے خطرے سے خبردار کرنے والا ایک نامعلوم جہاز ٹائٹینک کے قریب سفر کررہا تھا اور وہ مدد کے لیے پہنچ بھی سکتا تھا مگرپیغامات کے جواب میں آپریٹر کی بدتمیزی سے برہم ہوکر اس نے چپ سادھ لی اور ٹائٹینک کے مسافروں اور عملے کو یخ پانیوں میں مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔

آئس برگ سے ٹکرانے کے بعد ٹائٹینک کو مکمل طورپر ڈوبنے میں دو گھنٹے اور 40 منٹ لگے۔

جہاز پر موجود کشتیوں کے ذریعے 1178 افراد کی جانیں بچائی جاسکتی تھیں۔ مگر افراتفری کے عالم میں جب کشتیاں سمندر میں اتارنے کا سلسلہ شروع ہوا توابتدائی کشتیوں میں گنجائش سے کم افراد بٹھائے گئے جب کہ ایک کشتی غفلت کے باعث الٹ گئی۔ اس طرح صرف 705 مسافروں کو زندہ بچایا جاسکا۔

زندہ بچ جانے والوں میں سب سے زیادہ بچے اور خواتین تھیں۔ درجہ اول کے 94 فی صد اور درجہ دوم کے81 فی صد بچے اور خواتین محفوص رہیں جبکہ روایتی طور پر عملے کے 87 فی صد ارکان کشتیوں میں سوار ہوکر بھاگ نکلے۔

تیسرے درجے کے مسافروں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو اکثر اوقات ترقی پذیر ممالک میں غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ زیادہ تر مرد یخ پانی میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے اور تیسرے درجے کے صرف 47 فی صد بچوں اور خواتین کو کشتیوں میں جگہ مل سکی۔

ڈوبتے جہاز سے روانہ ہونے والی آخری کشتی کا آخری سوار چارلس جوگن تھا مگر وہ کوئی مسافر نہیں بلکہ جہاز کے عملے کا ایک رکن تھا۔

ٹائٹینک کے حادثے کی پہلی خبر نیویارک کے ایک اخبار میں شائع ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ جہاز ڈوبنے سے قبل تمام مسافروں کو بحفاظت نکال لیا گیا تھا۔

متاثرہ خاندانوں کو کچھ ملا یا نہیں، اس بارے میں معلومات بہت کم ہیں۔ البتہ کمپنی نے اپنی کشتیاں نیا رنگ روغن کرکے بیچ دیں اور سمندری تاریخ کے اس بڑے انسانی المیے پر بننے والی فلم نے ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کا ریکارڈ منافع حاصل کیا۔ ٹائٹینک فلم پر 20 کروڑ ڈالر لاگت آئی جبکہ جہاز صرف 75 لاکھ ڈالر میں بن کر تیار ہوگیا تھا۔ اس فلم کے حصے میں بہترین فلم سمیت گیارہ آسکر ایوارڈز آئے جو ایک ریکارڈ ہے۔

ٹائٹینک کے کپتان اسمتھ نے روانگی سے چند روز قبل اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ معمول کا سفر ہے کہ اس نےاپنی 40 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں کبھی کسی حادثے کا سامنا نہیں کیا۔

تاہم اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کے نتیجے میں رونما ہونے والا یہ پہلا المیہ نہیں ہے۔ تاریخ ایسے کئی سانحوں سے بھری پڑی ہے۔