امریکی فوج کے چوٹی کے عہدیدار جنرل مارک ملی نے چین کو کی گئی دو کالز کا دفاع کرتے ہوئے کانگریس کو بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے آخری مہینوں میں اپنے چینی ہم منصب کو کی گئی کالز کھلے عام اور جائز تحفظات کے جواب میں تھیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے کین بریڈی مایر کی رپورٹ کے مطابق منگل کو کانگریس میں سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے جنرل لی زواچینگ کو کی گئی کالز کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل مارک ملی نے کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اہم حکام ان کالز کے بارے میں جانتے تھے۔
جنرل ملر کے مطابق انہوں نے چین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس میں اپنی مدت کے آخری ہفتوں میں چین کے خلاف حملے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
واضح رہے کہ ان کالز کے بارے میں سب سے پہلے انکشاف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے صحافیوں باب ووڈ ورڈ اور رابرٹ کوسٹا کی جانب سے حال ہی ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آخری ایام کے حوالے لکھی گئی کتاب پیرل (Peril) میں کیا گیا تھا۔
اس انکشاف کے بعد سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوائنٹ چیفس کے چیئرمین کو 'ذہنی طور پر ایک مکمل غیر متوازن' شخص قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملی نے ' کبھی مجھے چین کو کی جانے والی کالز سے متعلق نہیں بتایا۔'
اسی طرح کچھ ری پبلکن قانون سازوں نے امریکی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ وہ جنرل مارک ملی کو برطرف کریں کیوں کہ ان کے بقول انہوں نے فوج پر سویلین کنٹرول کی دیرینہ امریکی روایت کی خلاف ورزی کی ہے۔
SEE ALSO: ٹرمپ دور کے آخری ایام پر کتاب، 'امریکی جنرل نے چین کو حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی'البتہ جنرل ملی نے 30 اکتوبر اور آٹھ جنوری کو اپنے چینی ہم منصب کو کی گئی ان کالز کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان 'انٹیلی جنس اطلاعات کے بارے' میں جواب دے رہے تھے کہ چین امریکہ کے حملے سے متعلق فکر مند تھا۔
جنرل ملی نے کہا کہ 'مجھے یقین تھا کہ صدر ٹرمپ چین پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتے اور یہ میری براہِ راست ذمہ داری تھی کہ صدارتی احکامات اور ارادے آگے پہنچائے جائیں۔'
چین پر حملہ کرنے یا نہ کرنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت میرا کام کشیدگی میں کمی لانا تھا، میرا پیغام یہی تھا کہ پرسکون، ثابت قدم رہیں اور کشیدگی میں کمی لائیں۔ ہم آپ پر حملہ کرنے نہیں جا رہے۔'
ان کالز کے بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے مارک ملی کا کہنا تھا کہ پہلی کال وزیرِ دفاع مارک ایسپر کی ہدایت پر کی گئی جب کہ دوسری کال کے وقت 11 لوگ موجود تھے اور انہوں نے بعد ازاں وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز کو اس بارے میں آگاہ کیا تھا۔
ملی نے کہا کہ دوسری کال جو ٹرمپ کے حامیوں کے کیپٹل ہل پر حملے کے دو روز بعد ہوئی وہ چین کی درخواست پر ہوئی اور اس وقت کے قائم مقام وزیرِ دفاع کرس ملر کا دفتر اس سلسلے میں رابطے میں تھا۔
مارک ملی کا کہنا تھا کہ وہ امریکی فوج کے سویلین کنٹرول کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کے بقول، فوج کا سویلین کنٹرول جمہوریت کا بنیادی اصول ہے اور وہ اس کے لیے پرعزم ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رہنا چاہیے۔