امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدِ صدارت کے آخری ایام سے متعلق ایک نئی کتاب میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق صدر کی جانب سے کسی بھی غیر دانش مندانہ فیصلے کے امکان کے پیشِ نظر امریکی جنرل مارک ملی نے اپنے طور پر چین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔
یہ کتاب آئندہ ہفتے تک سامنے آنے کا امکان ہے البتہ اخبار ’دی واشنگٹن پوسٹ‘، نشریاتی ادارے ’سی این این‘ اور دیگر اداروں نے اس کتاب کا کچھ مواد شائع اور نشر کیا ہے۔
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آخری ایام کے حوالے لکھی گئی کتاب کا عنوان (Peril) ہے اور اس کے مصنف امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے تحقیقاتی صحافی باب ووڈورڈ اور اسی اخبار کے سینئر پولیٹیکل رپورٹر رابرٹ کوسٹا ہیں۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی نے دو بار خفیہ ٹیلی فون کالز کے ذریعے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف لی زواچینگ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ امریکہ اس پر حملہ نہیں کرے گا۔
کتاب کے مطابق جنرل مارک ملی نے پہلی ٹیلی فون کال 30 اکتوبر 2020 کو کی تھی جس کے چار روز بعد صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو موجودہ صدر جو بائیڈن نے شکست دی تھی۔
کتاب کے مطابق دوسری کال آٹھ جنوری 2021 کو اس وقت کی گئی جب اس سے دو روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی عمارت پر چڑھائی کی تھی۔ اس وقت کانگریس میں جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کے لیے کارروائی جاری تھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ جس وقت چین کے حوالے سے انتہائی سخت الفاظ کا استعمال کر رہے تھے اس وقت جنرل مارک ملی نے کتاب کے مصنفین کو بتایا کہ انہوں نے چین کے اعلیٰ فوجی جنرل کو یقین دہانی کرائی کہ امریکہ چین پر حملے کی تیاری نہیں کر رہا۔
کتاب کے مطابق جنرل مارک ملی نے جنرل لی کو کہا کہ وہ ان کو یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ امریکہ میں حکومت مستحکم ہے اور سب کچھ بالکل ٹھیک ہو گا۔ انہوں نے چین کے جنرل کو یہ بھی کہا کہ امریکہ چین کے خلاف کوئی حملہ نہیں کر رہا اور نہ ہی کسی آپریشن کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
دوسری کال میں جنرل مارک ملی نے جنرل لی کو کہا کہ امریکہ سو فی صد مستحکم ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہے۔ البتہ جمہوریت میں بعض اوقات ایسے مواقع آتے ہیں۔
کتاب میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جنرل مارک ملی نے ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی سے بھی تبادلۂ خیال کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دوسری کال اس لیے کی کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات میں شکست کی وجہ سے خوش نہیں تھے۔
اُن کے بقول تین نومبر کے انتخابات کے نتائج سے ٹرمپ کو ذہنی پریشانی کا سامنا تھا۔ خیال رہے کہ ٹرمپ دور میں نینسی پلوسی اور سابق صدر ٹرمپ کے کئی سیاسی معاملات پر اختلافات سامنے آئے تھے۔
کتاب کے مصنفین نے نینسی پلوسی اور جنرل مارک ملی کی ٹیلی فون پر گفتگو کا جو مسودہ حاصل کیا تھا اس کے مطابق نینسی پلوسی نے جنرل مارک ملی سے کہا کہ ان کے الفاظ میں "وہ پاگل ہے۔ آپ جانتے ہیں وہ پاگل ہے۔" وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب اشارہ کر رہی تھیں۔
امریکہ کی کانگریس پر ہونے والی چڑھائی کے بعد جنرل مارک ملی کو اندیشہ تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غیر دانشمندانہ انداز اختیار کر سکتے ہیں۔
کتاب کے مطابق جنرل مارک ملی نے اپنے سینئر اسٹاف کو بھی کہا تھا کہ "آپ نہیں جانتے کہ صدر کس بات پر بھڑک سکتے ہیں۔"
جنرل مارک ملی نے فوج کے اعلیٰ حکام کو بھی طلب کیا تھا تا کہ وہ کسی بھی جوہری حملے کے طریقۂ کار کا جائزہ لے سکیں۔ جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ صرف امریکہ کے صدر جو کمانڈر ان چیف بھی ہیں، جوہری حملے کا حکم دے سکتے ہیں۔ البتہ وہ، یعنی جنرل مارک ملی، بھی اس میں شامل ہوں گے۔
کتاب کے مصنفین ووڈورڈ اور کوسٹا کے مطابق جنرل مارک ملی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات میں شکست کے بعد رویے پر خدشات کے حوالے سے امریکہ میں حکومت میں شامل افراد نے بھی تبادلۂ خیال کیا تھا۔
امریکہ کے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کی اس وقت کی سربراہ جینا ہسپل نے بھی جنرل مارک ملی کو کہا تھا کہ امریکہ اس وقت دائیں بازو کی بغاوت کی جانب بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کی مدت مکمل ہونے کے بعد روایات کے برعکس نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیے بغیر ہی وائٹ ہاؤس سے روانہ ہو گئے تھے۔ اس روز تک ان کا اصرار تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ 2024 میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے سوچ رہے ہیں۔
کتاب میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح اس وقت کے نائب صدر مائیک پینس ڈونلڈ ٹرمپ کے اس مطالبے سے کس طرح نبردآزما ہوئے جب ان سے صدر نے کہا کہ وہ چھ جنوری کو انتخابات کی توثیق سے انکار کریں۔
مصنفین نے لکھا ہے کہ مائیک پینس نے سابق نائب صدر ڈین کوئل سے رابطہ کیا جنہوں نے 1992 کے صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد انتخابات کی توثیق کی تھی۔ البتہ ڈین کوئل نے مائیک پینس کو کہا کہ ان کے پاس جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس وقت تک اہم ریاستوں سے کئی بار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد نتائج آ چکے تھے جب کہ عدالتی کارروائی میں بھی کامیابی نہیں ملی تھی۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور موجودہ صدر جو بائیڈن نے اس کتاب کے لیے انٹرویو دینے سے معذرت کی تھی۔
اس کتاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری ہفتوں کے اقدامات کے تذکرے پر سابق صدر کا فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔