افغانستان کی صورتِ حال امریکہ کے بہت سے فوجیوں کے لیے ذاتی نوعیت کا دکھ لے کر آئی ہے۔ جیسے جیسے افغانستان سے تصاویر اور ویڈیوز دنیا تک پہنچ رہی ہیں۔ ان فوجیوں کو وہ جنگ یاد آ رہی ہے جو انہوں نے لڑی۔ وہ فوجی اہلکار جو انہوں نے کھو دیے اور ڈیوٹی کے دوران کا دکھ سکھ یاد آ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق افغانستان میں کی صورتِ حال میں جہاں عام شہری طالبان کی حکومت سے بھاگنے کے لیے پریشان دکھائی دے رہے ہیں وہیں اس بارے میں امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کے دو اعلیٰ افسران نے کہا ہے کہ یہ حالات دیکھنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔
ان افسران کا کہنا ہے کہ افغان شہریوں کا ملک سے نکلنے کے لیے کوششیں کرنا اور جہازوں سے لٹکنے جیسی ویڈیوز یا تصاویر فوجی اہلکاروں کے لیے تکلیف دہ ہیں۔
افغانستان میں امریکی افواج کو کمانڈ کرنے والے ریٹائرڈ جنرل للائیڈ آسٹن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ سب ان کے لیے ذاتی نوعیت کا ہے۔
’’یہ جنگ جسے نہ صرف میں نے لڑا بلکہ اس کی قیادت کی۔ میں اس ملک کو جانتا ہوں، اس کے لوگوں کو جانتا ہوں اور انہیں بھی جو میرے شانہ بشانہ لڑے ہیں۔‘‘
امریکہ کے آرمی چیف جنرل مارک ملی نے بھی ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 20 برس میں 2448 امریکی ہلاک ہوئے۔ 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر ایک سے مخاطب ہو کر کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی خدمات بہت اہم تھیں۔
انہوں نے سیکریٹری دفاع کی بات سے متفق ہوتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ ان کے لیے بہت ذاتی نوعیت کی تھی۔ اور یہ ہر اہلکار کے لیے بھی بہت اہم ہے۔
اے پی کے مطابق حالیہ دنوں میں ان رہنماؤں نے نجی طور پر اپنے اسٹاف سے اس متعلق گفتگو کی تھی۔ اور اپنی افواج کو پیغامات بھجوائے ہیں جنہیں مختلف جذبات کا سامنا ہے۔ یہ اہلکار طالبان کے قبضے، ان افغانوں جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیا ہے، ان کی سلامتی اور اس سوال پر پریشان ہیں کہ کیا انہوں نے جو خدمات دیں وہ اہم تھیں؟