پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصروف ترین سرحد طورخم کو نو روز کی بندش کے بعد ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
پشاور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق پاکستانی حکام نے جمعے کی صبح لگ بھگ آٹھ بجے طورخم سرحد کو کھولا تو سینکڑوں مسافر افغانستان جانے کے لیے امیگریشن سیکشن کے سامنے جمع ہو گئے۔
سرحد کھلنے کے بعد امپورٹ، ایکسپورٹ سمیت ٹرانزٹ گاڑیوں کی آمدو رفت بھی بحال ہو گئی ہے اور کسٹم عملے نے تجارتی سامان کی کلیئرنس کا کام شروع کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ چھ ستمبر کی صبح سرحدی فورسز کے درمیان دوطرفہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد طورخم سرحد کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ سرحد کی بندش کے باعث دونوں طرف تجارتی ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ گئی تھیں جس کی وجہ سے تاجروں کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سرحد کی بحالی پر مذاکرات کے لیے جمعرات کو طالبان حکومت کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی اور کابل میں پاکستانی ناظم الامور کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے تھے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ طورخم سرحد کی بندش خوشی سے نہیں کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی حکومت چاہتی ہے کہ سیکیورٹی سے متعلق پاکستان کے تحفظات پر افغانستان توجہ دے اور اس کا سدِ باب کیا جائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
پاکستان کے سابق وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے جمعے کو سماجی رابطے کی سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کے ساتھ مسائل مریضوں کی آمد و رفت اور تجارت تک محدود نہیں بلکہ مسائل بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونا بھی مسئلہ ہے، مریضوں کے تیماردار کے لبادے میں دہشت گرد پاکستان آ رہے ہیں۔
خواجہ آصف نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کابل کی اتحادی ہے۔ برادر ہمسایہ ہونے کے ناطے افغانستان کا فرض ہے کہ وہ امن کی ضمانت اور فروغ کو یقینی بنائے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت نے بارہا پاکستان کے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ دہشت گرد پاکستان میں کارروائی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
'تاجروں کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا'
پاکستان اور افغانستان کے مشترکہ چیمبر آف کامرس کے عہدے دار ضیاء الحق نقشبندی کہتے ہیں کہ نو روز کے دوران پاکستانی تاجروں کو لگ بھگ 50 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سرحد کے دونوں جانب اشیائے خورونوش سے لدے لگ بھگ 2500 ٹرک کھڑے رہے جس کی وجہ سے مالکان اور ڈرائیوروں کا نقصان ہوا۔
افغانستان میں علاج معالجے کی سہولیات کم ہونے کے باعث مختلف امراض میں مبتلا یا متاثرہ لوگ پشاور آتے جاتے ہیں۔
طورخم میں قائم پاکستان دوستی اسپتال کے ایک ڈاکٹر نے نام نہ بتانے کی درخواست پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان سے روزانہ 100 مریض اور ان کے لواحقین بغیر ویزا کے پشاور کے نجی یا سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لیے آتے ہیں۔
پشاور کے نجی اسپتال رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوب کے ترجمان شبیر شاہ کہتے ہیں کہ ان کے اسپتال آنے والے مریضوں میں سے 25 فی صد کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے۔
صنعت و حرفت کے علاوہ طورخم کی سرحدی گزرگاہ کی بندش سے مقامی قبائل بھی متاثر ہوئے ہیں۔