سعودی عرب کی وزارت دفاع نے دو فوجی اہل کاروں کو پھانسی دے دی ہے جن پر دیگر جرائم کے علاوہ غداری کا الزام تھا، یہ بات سرکاری خبر رساں ایجنسی (ایس پی اے) نے جمعرات کو بتائی۔
ایس پی اے نے وزارت کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو افسران، ایک پائلٹ اور ایک سارجنٹ میجر، کو 2017 میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں غداری اور قومی مفاد اور فوجی اعزاز کا تحفظ نہ کرنے کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے مزید کہا کہ ملزمان کو نامزد عدالت میں بھیجا گیااور انہیں تمام عدالتی ضمانتیں فراہم کی گئیں۔اور یہ کہ انہوں نےخود پر عائد کیے جانے والے الزامات کا اعتراف کیا تھا۔
بیان میں ان کے جرائم کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں لیکن سعودی فوج ، سن 2017 میں یمن میں بہت زیادہ مصروف تھی، جہاں مملکت نے ایک اتحاد بنایا تھا اور وہ 2015 سے ایران کے ساتھ منسلک حوثی گروپ سے لڑ رہا تھا۔
لڑائی بڑی حد تک ختم ہو چکی ہے لیکن ریاض خود کو اس تنازعے سے نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہاہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور لاکھوں یمنی بھوک اور بیماری کا سامنا کر رہے ہیں۔
مملکت نے 2021 میں بھی تین فوجیوں کو پھانسی دی تھی جن پر "سنگین غداری" اور "دشمن کے ساتھ تعاون" کا الزام تھا۔
سعودی عرب اپنے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بڑھتی ہوئی عالمی تنقید کی زد میں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل ریاض پر تشدد اور غیر منصفانہ ٹرائل کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے سزائے موت کے استعمال کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی نے گزشتہ ہفتے کہا کہ مملکت نے اس سال ایک سو افراد کو، اور 2022 میں 196 افراد کو موت کی سزا دی ہے، جو گزشتہ 30 سالوں میں ریکارڈ کی گئی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
(یہ رپورٹ خبر رساں ایجنسی رائٹرز کی معلومات پر مبنی ہے۔)
فورم