|
"جو کچھ کل دیکھنے کو ملا مجھے اس پر حیرت نہیں ہے میرے خیال سے ریاست بندوق سے زیادہ سوال سے ڈرتی ہے اس لیے اسے سمجھ نہیں آتا کہ سوال کرنے والے لوگ جن کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں صرف دلیل ہے ان سے کیسے نمٹا جائے اس بدحواسی میں وہ وہی کرتی ہے جو اس نے کل کیا۔"
یہ کہنا ہے صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان کا جو کل 'سندھ رواداری مارچ' کے شرکا پر پولیس کی جانب سے کئے جانے والے تشدد کو ریاست کی ناکامی سمجھتے ہیں۔
یہ 13 اکتوبر اتوار کا دن تھا جب کراچی کا ریڈ زون میدانِ جنگ بنا رہا جس کی وجہ تین تلوار سے کراچی پریس کلب تک سندھ رواداری امن مارچ کی کال تھی۔
مارچ کا اعلان تین اکتوبر کو میڈیا کے سامنے کر دیا گیا تھا۔ سول سوسائٹی کے اس احتجاج کا مقصد عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے الزام میں ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر کے پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل اور سندھ میں بڑھتی انتہا پسندی کے خلاف تھا۔
لیکن مارچ سے ایک روز قبل تحریک لبیکِ پاکستان (ٹی ایل پی) نے بھی اسی مقام پر جہاں سندھ رواداری مارچ ہونا تھا وہی احتجاج کا اعلان کر دیا۔ ان کے احتجاج کا مقصد توہینِ مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی پولیس کے ہاتھوں قتل کی حمایت تھی۔
تصادم کے خدشے کے پیشِ نظر صوبائی حکومت کی جانب سے کراچی خصوصاً ریڈ زون میں پانچ روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی جس کے تحت کسی بھی قسم کے جلسے، جلوس پر پابندی عائد تھی۔
دو مختلف سوچ اور نظریات رکھنے والے گروپس اگر آمنے سامنے آ گئے تو کیا کچھ ہو سکتا ہے یہ یقیناً صوبائی حکومت کے ذہن میں ہو گا۔ لیکن یہ کس حد تک جا سکتا ہے اس پر صحافی پہلے سے ہی الرٹ تھے۔
تیرہ اکتوبر کو تین تلوار پر جہاں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی وہیں ریڈ زون جس میں (کراچی پریس کلب، وزیر اعلی ہاؤس، سندھ اسمبلی، گورنر ہاؤس) آنے اور جانے والے تمام راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے پولیس کو تعینات کر دیا گیا۔ پولیس کی تیاری دیکھ کر ہی اندازہ ہوا جیسے وہ کسی جنگ کے لیے تیار ہیں۔
اتوار کو یوں تو کراچی شہر کی سڑکوں پر گہما گہمی کم ہی ہوتی ہے لیکن پولیس کے اس اقدام سے ریڈ زون کے اطراف میں موجود شہریوں کو ڈر اور خوف محسوس ہونے لگا کہ معاملات بگڑ سکتے ہیں۔
رپورٹنگ کی غرض سے جب میں نے پریس کلب جانے کی کوشش کی تو مجھے ایک صحافی نے کال پر مطلع کیا کہ آپ جہاں کہیں بھی ہیں واپس لوٹ جائیں آپ کو اس علاقے میں آنے کا کوئی راستہ نہیں مل سکے گا۔
جب یہ بات ہو رہی تھی تو مجھے مزارِ قائد سے آگے ہی پولیس کی بھاری نفری نظر آ چکی تھی۔ مجھے صحافی نے بتایا کہ جس وقت صبح پولیس یہ رکاوٹیں لگا رہی تھی تب ہی مقامی میڈیا کے صحافیوں کو ان کے چینلز نے پریس کلب اور تین تلوار بھیج دیا تھا کہ کسی بھی قسم کے تصادم ہونے سے پہلے کیمرہ مین اور رپورٹر وہاں موجود ہوں۔
کراچی پریس کلب کے باہر سیاسی احتجاج کے علاوہ ہر قسم کے احتجاج ہوتے رہتے ہیں اور جب بھی یہاں سے مظاہرین ریڈ زون کی جانب بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو پولیس ان کا راستہ روک لیتی ہے۔
لیکن اس بار کی تیاری سے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے اب تک کے تمام احتجاجوں سے یہ احتجاج بہت خطرناک ہے جس کے لیے ایسے انتظامات کیے گئے۔
سندھ رواداری مارچ میں سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ادیب، دانش ور، شاعر، گلوکار، قانون دان، مزدور، اقلیتوں کی نمائندگی کرنے والے سب ہی لوگ موجود تھے۔
تین بجے سماجی رکن عالیہ بخشل سے بات کرتے ہوئے میں نے ان سے دریافت کیا کہ تین تلوار سے آپ کے ساتھی ڈاکٹر سورٹھ سندھو، علی پلھ اور دیگر افراد گرفتار ہوئے ہیں تو کیا اب بھی ممکن ہے کہ مارچ کیا جائے گا؟ تو ان کا جواب تھا کہ ہم ہر صورت پریس کلب پہنچ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے یہ ہمارا جمہوری اور آئینی حق ہے۔
ساڑھے تین سے چار بجے کے درمیان سندھو نواز، عالیہ بخشل مارچ کے شرکا کے ہمراہ پریس کلب کی جانب روانہ ہوئیں جہاں پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی اور اس کے بعد صورتِ حال کشیدہ ہو گئی۔
پریس کلب کے دروازے کے باہر سے پولیس نے مصنف اور اسکالر جامی چانڈیو کو گھسیٹ کر پولیس وین میں ڈالنے کی کوشش کی جس پر مارچ میں شریک افراد نے انھیں بچانے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس کو روکا جس پر پولیس نے خواتین پر دھاوا بول دیا۔
جامی چانڈیو کی صاحبزادی رومیسا جامی جو یونیورسٹی آف لندن سے قانون کی طالبہ اور ریسرچر ہیں انھیں پولیس نے سڑک پر گھسیٹتے ہوئے پولیس وین میں ڈالا۔
اسی طرح سندھو نواز، عالیہ بخشل سمیت دیگر خواتین کو بھی حراست میں لیا گیا۔ فوک موسیقی سے تعلق رکھنے والے گلوکار اور شاعر سیف سمیجو جو اس مارچ میں شریک تھے پولیس نے انھی بھی بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گرفتار کیا۔
اس تصادم اور گرفتاریوں کے دوران پولیس نے صحافیوں کو بھی مارا پیٹا اور ان کے فون اور کیمرے توڑ دیے۔
سینئر صحافی شوکت کورائی کو گرفتار کیا گیا اور 'کے ٹی این' کے رپورٹر پون کمار کو کئی پولیس اہلکاروں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ مظاہرین کو حراست میں لیے جانے کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے ڈنڈے مارے۔ یہاں تک کہ مارچ کے شرکا کے ساتھ ساتھ ہیومن رائٹس کمیشن (ایچ آر سی پی) کے وائس چیئرمین قاضی خضر کو بھی گرفتار کیا گیا۔
یہ تمام مناظر فلمبند کرنے والے ایک فوٹو گرافر کا کہنا تھا کہ انھوں نے آمریت سے جمہوریت کے دور کی بہت سی تصاویر بنائیں۔ لیکن کل جو ہوا اس میں اور جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے ایسے تشدد میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔
رومیسا جامی کی سڑک پر سے گھسیٹتے ہوئے پولیس وین میں ڈالنے کی ویڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں۔
بہت سے لوگوں نے رومیسا کی تصاویر کو 1977 میں ضیاءالحق کے دور حکومت میں لاہور شہر میں احتجاج کے دوران نصرت بھٹو پر ہونے والے تشدد سے جوڑا۔ سوشل میڈیا پر بعض صارفین یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ وہ آمریت کا دور تھا جس میں ایک آمر سے اس رویے کی توقع تھی یہ جمہوری دور ہے اس میں ایسا ہونا نوجوان نسل کو اور ناامید کر رہا ہے۔
ابھی رواداری مارچ کے شرکا کو گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن منتقل ہی کیا جا رہا تھا کہ میٹروپول کے اطراف میں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مظاہرین جمع ہونا شروع ہو گئے۔
پولیس نے انھیں روکنے کی کوشش کی لیکن ان مظاہرین نے بھرپور مزاحمت کی۔ پولیس پر پتھراؤ کے بعد شیلنگ، لاٹھی چارج یہاں تک کہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
مشتعل مظاہرین نے پولیس سے جھڑپوں کے دوران پولیس موبائل کو نذرِ آتش کیا اور کئی موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگائی۔ ان ہی جھڑپوں کے دوران ٹی ایل پی کا ایک رکن فائرنگ سے ہلاک ہوا۔
اس دوران پولیس نے درجنوں کارکنان کو گرفتار کیا۔ پولیس اور مسلح مظاہرین کے درمیان جھڑپیں رات تک جاری رہیں جس کے بعد وزیرِ داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ کراچی میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث انھوں نے دونوں گروپس کو احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
SEE ALSO: پشتون قومی جرگہ ختم؛ فوج اور دہشت گرد تنظیموں سے انخلا کا مطالبہ'ہمارے دل رنجیدہ ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار شاہ زیب جیلانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ رواداری مارچ کے افراد کے ساتھ سندھ پولیس نے جو زبردستی کی ہے اس سے مجھ سمیت سندھ کے بہت سارے لوگوں کے دل رنجیدہ ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسی شخصیات کو مارا پیٹا گیا جو ہمارے صوبے میں رواداری اور امن کی بات کرتے ہیں۔
شاہ زیب جیلانی کا کہنا تھا کہ اتوار کی تمام کارروائی کے بعد سندھ حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آ گئی یہ وہ صوبہ ہے جہاں حکمراں جماعت خود کو جمہوریت کی چیمپئن کہتی ہے۔
شاہ زیب جیلانی کا مزید کہنا تھا کہ اتوار کو جن لوگوں نے فتنہ فساد کیا ان کی ایک طویل ہسٹری ہے۔ لیکن اس گروپ کی جسے پریس کلب کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے کبھی لوگوں کو تشدد پر اکسایا ہو یا خود کبھی اس کے مرتکب ہوئے ہوں۔
صحافی اور تجزیہ کار وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ اس ریاست میں اسٹکر بدل جاتے ہیں لیکن ذہنیت اور مشینری تو وہی ہے آپ بھلے اس کا نام ایوب خان، بھٹو یا ضیاء الحق کر دیں۔ نواز شریف یا پرویز مشرف کہیں یا پھر عمران خان یا شہباز شریف کی موجودہ حکومت ریاست کا خمیر یہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ریاست ایک زمانے میں طالبان سے یہاں تک کہ مسلح بلوچوں سے بھی بات کرنے کو تیار تھی۔ لیکن پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) جو غیر مسلح ہے یا بلوچ یکجہتی مارچ کی ماہ رنگ بلوچ جو آئین کی عمل داری کی بات کرتے ہیں، ان کے ساتھ ریاست کا سلوک سب کے سامنے ہے۔
وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ جو تصاویر سامنے آئیں وہ کچھ مختلف اس لیے نہیں کہ ایوب خان اور ضیاء الحق کے زمانے کی تصاویر کو دیکھیں تو اس دور میں سول سوسائٹی کے لوگ، فیض، حبیب جالب کے ساتھ کیا ہوا یہ ایک تسلسل کے ساتھ ہوتا ہی جا رہا ہے۔
'معاملے کو مس ہینڈل کیا گیا'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے خلاف جس طرح لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاملے کو مس ہینڈل کیا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس دوران جو تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں اس سے لامحالہ پاکستان کا عالمی تشخص متاثر ہوتا ہے۔ خاص طور پر جب ملک میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا سربراہی اجلاس بھی ہونے جا رہا ہے۔
مظہر عباس کا کہنا تھا کہ دانش ور جامی چانڈیو کی بیٹی کو جس طرح گھسیٹا گیا خواتین تو کیا کسی مرد کو بھی اس طرح حراست میں نہیں لینا چاہیے۔ لیکن پولیس نے ایک جوان لڑکی کے ساتھ جو سلوک کیا اس سے زیادہ شرمناک واقعہ اور ہو نہیں سکتا۔
سندھ پولیس کے ترجمان علی راشد کے مطابق صورتِ حال کو مس ہینڈل کرنے والے پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔ معطل ہونے والوں میں ایک انسپکٹر، پانچ خواتین پولیس اہلکار اور پانچ مرد اہلکار شامل ہیں۔