پنجاب کے شہر رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں مسافر ٹرین ریلوے اسٹیشن پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکرا گئی۔ حادثے میں کم از کم 21 مسافر ہلاک اور 84 زخمی ہو گئے ہیں۔ حادثے کی شکار ٹرین کے ڈرائیور عبد الخالق کا کہنا ہے کہ مجھے سگنل گرین ملا لیکن آگے دوسری ٹرین کھڑی تھی، مگر ایمرجنسی بریک نے کام نہیں کیا۔
پاکستان ریلوے کے ترجمان کے مطابق جمعرات کی صبح لاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس چار بج کر 45 منٹ پر ولہار سٹیشن صادق آباد کے ٹریک پر پہلے سے موجود پارسل ایکپریس سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں کئی بوگیاں الٹ گئیں اور کئی مسافر ان میں پھنس گئے۔
حادثے کی اطلاع ملتے ہی ریلوے اور ضلعی انتظامیہ نے ریسکیو کا آپریشن شروع کر دیا۔ اب تک 20 مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکہ 75 سے زائد زخمیوں کو ریسکیو کیا جا چکا ہے۔
حادثہ اتنا شدید تھا کہ مسافر ٹرین کا انجن مکمل طور پر تباہ ہو گیا جب کہ اس کی چار بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ حکام کے مطابق حادثے کے فوری بعد امدادی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور زخمیوں کو صادق آباد اور رحیم یار خان کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے پاکستانی فوج کا ایک دستہ بھی جائے حادثہ پر پہنچ گیا ہے۔
رحیم یار خان کے ڈپٹی کمشنر جمیل احمد کا کہنا ہے کہ ٹرین میں پھنسے مسافروں کو نکالنے کے لیے ہیوی مشینری استعمال کی گئی جب کہ حادثے میں محفوظ رہنے والے مسافروں کو کھانا اور پانی بھی فراہم کیا گیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق ہلاک ہونے والے مسافروں کی میتوں اور زخمیوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
’’زخمیوں کو اسپتال میں طبی امداد دی جار رہی ہے اور معمولی زخمیوں کو ڈاکٹرز کے اطمینان کے بعد گھر جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ ہلاک ہونے والے مسافروں کی میتوں کو ایمبولینس کے ذریعے گھروں تک پہنچایا جا رہا ہے۔ “
حادثہ کیسے پیش آیا
اس سوال کا جواب حادثہ کا شکار ہونے والی ٹرین اکبر ایکسپریس کے ڈرایئور عبد الخالق نے اس طرح دیا۔“ مجھے سگنل گرین نظر آیا۔ آگے بڑھا تو اور ٹرین کھڑی تھی۔ ایمرجنسی بریک لگائی۔ لیکن ہم فٹ پلیٹ میں نکل گئے۔ “
اکبر ایکسپریس کے 75 سے زائد مسافر زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر زخمی مسافر الٹ جانے والی بوگیوں میں پھنس گئے تھے جنہیں نکالنے میں کافی وقت لگا۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ پتا ہی نہیں چلا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اکثر مسافر برتھ سیٹ سے گرے اور کئی نشستوں میں پھنس گئے ۔
ایک زخمی بچے شاہد نے بتایا کہ میں سو رہا تھا اور ہلکی نیند میں تھا۔ مجھے لگا کہ گاڑی الٹ رہی ہے۔ پھر اچانک بریک لگی اور گاڑی الٹ گئی۔ چھت کا پنکھا ٹوٹ کر مجھے لگا۔ میں خود لٹکا ہوا تھا “
لاہور کے ایک زخمی مسافر عمران کا کہنا ہے کہ میں واش روم گیا ہوا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے میں بڑی مشکل سے نکلا۔
ڈی پی او عمر سلامت کے مطابق ان کی ابتدائی معلومات کے مطابق ٹرینوں کے درمیان افسوسناک حادثہ سگنل بروقت تبدیل نہ کرنے کے باعث پیش آیا۔ مسافر ٹرین کے لوپ لائن پر آنے کی وجہ بظاہر نظر نہیں آ رہی۔ ضلعی پولیس محکمہ ریلوے کے ساتھ مل کر حادثے کے محرکات جاننے کے لیے تفتیش کر رہی ہے اور جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی جا رہی ہے۔
دوسری طرف ترجمان ریلوے کے مطابق ہیڈکوارٹرز لاہور سے جی ایم ریلوے اور دیگر افسران کی ٹیم براستہ روڈ جائے حادثہ پر پہنچ چکی ہے اور سکھر کے ڈویژنل افسران موقع پر ریلیف آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
حادثے کے بعد مین ریلوے ٹریک پر ٹرین آپریشن کئی گھنٹے معطل رہا اور ٹرینیں مختلف سٹیشنوں پر روک دی گئیں۔ تاہم دوپہر کے بعد اپ ٹریک کھول دیا گیا ہے اور اب اپ اور ڈاؤن دونوں ٹرینوں کو ایک ہی اپ ٹریک سے گزارا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے حادثے کی فوری تحقیقاتی رپورٹ طلب کی ہے۔
وزیر ریلوے نے ہلاک ہونے والے مسافروں کے لیے 15، 15 لاکھ جب کہ شدید زخمیوں کو پانچ، پانچ لاکھ روپے معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے صادق آباد حادثے پر افسوس کا اظہار ایک ٹوئٹ کے ذریعے کیا ہے اور وفاقی وزیر ریلوے سے کہا ہے کہ وہ دہائیوں سے نظر انداز کیے گئے ریلوے کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں اور سیفٹی اسٹینڈرڈ کو یقینی بنائیں۔
حادثے کے بعد اکبر ایکسپریس کی محفوظ رہ جانے والی بوگیوں کو کوئٹہ روانہ کر دیا گیا ہے۔
پچھلے دس ماہ میں یہ اٹھارواں ریل حادثہ ہے۔