چین میں 10 جنوری سے سونے کی کان میں پھنسے ہوئے 22 کان کنوں کو باہر نکلنے کے لیے ابھی مزید 15 دن تک انتظار کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ راستہ ابھی تک کھولا نہیں جا سکا جس کے ذریعے امدادی کارکن ان تک پہنچ سکتے ہیں۔
چین کے علاقے چیشیا میں واقع ہوشان کان میں 22 کان کن اس وقت پھنس گئے تھے جب ایک دھماکے سے اس کا زیر زمین راستہ بند ہوگیا تھا۔
صوبے شن ڈونگ کے شمال مشرقی ساحلی علاقے میں واقع یہ سونے کی سب سے بڑی کان ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق کان کے اند ردھماکہ ہونے سے ایک کان کن ہلاک ہو گیا تھا جب کہ 11 کے زندہ ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ باقی ماندہ 10 کان کن ابھی تک لاپتا ہیں۔
امدادی کارکن زیر زمین تقریباً 600 میٹر کی گہرائی میں پھنسے ہوئے 10 کان کنوں تک پہنچنے کے لیے کان کے مرکزی حصے میں نئی سرنگیں کھود کر رہے ہیں، جن کے ذریعے انہیں کھانے پینے کا سامان اور ادویات پہنچائی جا سکیں۔ جب کہ زندہ بچ جانے والوں کا ایک اور گروپ کان کے اندر ایک دوسرے مقام پر موجود ہے۔
کھودی جانے والی سرنگوں کا قطر 28 انچ ہے اور امدادی کارکنوں کو توقع ہے کہ اس سرنگ سے کان کنوں کو باہر نکالا جا سکتا ہے۔
ایک عہدے دار گونگ ہیٹاؤ نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا ہے کہ سرنگ کے راستے کی رکاوٹیں دور کرنے میں کم از کم مزید 15 دن لگ سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ راستے میں آنے والی چٹان توقع سے کہیں زیادہ بڑی اور سخت ہے۔ اس کی موٹائی تقریباً 100 میٹر اور وزن 70 ٹن کے لگ بھگ ہے۔
علاقے میں گہری دھند چھائی ہوئی ہے جب کہ وہاں جانے والی سڑک کیچڑ سے لت پت ہے۔ کان کے قریب ایمبولینسز کی قطاریں نظر آ رہی ہیں۔
پولیس نے کان کی طرف جانے والے راستے کو بند اور سڑک کے اردگرد رکاوٹوں اور درختوں کو ہٹا دیا ہے تاکہ امدادی سرگرمیوں کو تیزی سے سرانجام دیا جا سکے۔ کان کے باہر صحت کا عملہ بھی موجود ہے۔ جو کرونا کی ٹیسٹنگ بھی کر رہا ہے۔
تقریباً 600 افراد امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، جب کہ کان کے باہر 25 ایمبولینسز کھڑی ہیں۔ وہاں موجود طبی عملے میں خوف و دہشت کی کیفیت سے چھٹکارہ دلانے والے ماہرین نفسیات بھی شامل ہیں۔
چین میں بڑی تعداد میں کانیں موجود ہیں اور یہاں ہلاکت خیزی کے واقعات بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ کانوں کے تحفظ کے ادارے کی ایک ر پورٹ کے مطابق سن 2020 میں چین میں کانوں کے حادثات میں 573 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔