وزیرِ اعظم شہباز شریف کی کابینہ کا پہلا اجلاس آج بروز بدھ کو ہو گا ۔ کابینہ کی تشکیل میں تاخیر اور پھر اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں میں اختلافات کی خبریں سامنے آنے کے بعد سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما نئی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
منگل کو پہلے مرحلے میں 31 وزیروں، تین وزرائے مملکت نے حلف اٹھایا تھا جن میں سے 24 وفاقی وزرا اور دو وزرائے مملکت کو قلمدان سونپے جا چکے ہیں۔اس وفاقی کابینہ میں تین معاون خصوصی بھی شامل ہیں۔
وزیرِ داخلہ، وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی اور دیگر کئی اہم وزارتوں کا قلمدان کسی کو نہیں دیا گیاہے۔ وزیرِ خارجہ کے لیے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا نام زیرِ غور تھا لیکن منگل کو ایوانِ صدر میں حلف برداری کی تقریب میں موجود ہونے کے باوجود بلاول بھٹو نے حلف نہیں اٹھایا تھا۔
مقامی ذرائع ابلاغ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بلاول بدھ کو لندن روانہ ہوں گے جہاں وہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے ملاقات کریں گے جس کے بعد وطن واپسی پر وہ کابینہ میں شامل ہو کر وزیرِ خارجہ کے عہدے کی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ میں 14 ارکان وہ ہیں جو پہلی بار وفاقی وزیر بنے ہیں جب کہ کابینہ میں پانچ خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
SEE ALSO: وفاقی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر:’ اتحادی جماعتوں کی ہچکچاہٹ کی وجہ معاشی حالات ہیں‘پہلی بار کابینہ کا حصہ بننے والوں میں مسلم لیگ ن کے رانا ثنااللہ، میاں جاوید لطیف، مرتضیٰ جاوید عباسی، عائشہ غوث پاشا، طلحہ محمود، اعظم نذیر تارڑ شامل ہیں۔
وفاقی کابینہ میں پیپلز پارٹی کے 14 میں سے چھ ارکان پہلی مرتبہ وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے ہیں جن میں عبدالقادر پٹیل، شازیہ مری، عابد حسین بھائیو، مرتضیٰ محمود، احسان الرحمٰن مزاری، ساجد حسین طوری شامل ہیں۔
ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری، جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اسرار ترین بھی پہلی بار کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جہاں وفاقی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر مو ضوعِ بحث ہے وہیں کابینہ میں شامل بعض وزیروں کا موازنہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ سے کیا جا رہا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جس سست روی سے حکومت فیصلے کر رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ انجن نے جلد دھواں چھوڑنا شروع کر دینا ہے۔
قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کہتے ہیں اگر اتفاقاً یا غلطی سے کابینہ کے 24 وزرا کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں تو کابینہ کا اگلا اجلاس کہاں ہو گا۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف سمیت کابینہ میں شامل بعض ارکان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
اس سے قبل سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ چوں چوں کا مربہ کابینہ کا نام پڑھیں تو لگتا ہے کہ سینٹرل جیل کا حاضری رجسٹر ہے، سارے بڑے ڈاکو کابینہ میں شامل ہو گئے ہیں۔
فواد چوہدری کی اس ٹوئٹ کا جواب دیتے ہوئے وزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ اب سینٹرل جیل کے حاضری رجسٹر کا صفحہ پلٹ چکا ہے۔ مجرم چار سال ملک پر مسلط اور بے گناہ جیلوں میں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے بے گناہوں کو عزت دی اور انہیں سرخرو کیا۔
مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر پر کئی صارفین وزیرِ صحت عبدالقادر پٹیل کا موازنہ عمران خان کی حکومت میں معاون خصوصی رہنے والے ڈاکٹر فیصل سلطان سے کر رہے ہیں۔
ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ اگر آپ کو اب بھی نئے اور پرانے پاکستان میں فرق نظر نہیں آرہا تو آپ کو اپنی آنکھوں پر پڑی گرد ہٹانے کی ضرورت ہے۔
عمران خان کی حکومت میں بطور معاون خصوصی ذمے داریاں انجام دینے والی ثانیہ نشتر کا مقابلہ شہباز شریف کی کابینہ میں شامل معاون خصوصی شازیہ مری سے کیا جا رہا ہے۔
تنویر راجپوت نامی ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ لندن سے پی ایچ ڈی کرنے والی ثانیہ نشتر کی جگہ نئی حکومت نے بی اے پاس شازیہ مری کو لگا دیا ہے۔
کامران نامی ٹوئٹر صارف نے بالی وڈ کرداروں کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے اس پر تبصرہ کیا کہ یہ ان کے لیے جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ عمران خان کے پاس ٹیم نہیں تھی۔ امید ہے کہ پاکستان کے عوام اتنے سادہ نہیں کہ وہ فرق نہ پہچان سکیں۔