پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں عمران خان کے منتخب کردہ عبدالقیوم نیازی بھی اپنی ہی جماعت کے ممبران کے ہاتھوں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوگئے۔ وزارت عظمیٰ سےمستعفی ہونے سے قبل، عبدالقیوم نیازی نے پریس کانفرنس میں ڈھکے چھپے الفاظ میں پیسے کی سیاست کو موردالزام ٹھہرایا۔ ان کے مستعفی ہونے کے بعد 53 ارکان کے ایوان میں سے 33 ووٹ لیکر تحریک انصاف کے ہی سردار تنویر الیاس وزیراعظم بن گئے ہیں۔
عبدالقیوم نیازی کون ہیں؟
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم عبدالقیوم نیازی نے آٹھ ماہ قبل انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کے بعد سادہ اکثریت حاصل تھی۔ 53 ارکان کے ایوان میں وزیراعظم کے لیے 27 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے اور تحریک انصاف نے 32 نشستیں حاصل کی تھیں اور اس کے ساتھ انہیں مسلم کانفرنس کی ایک نشست کی حمایت بھی حاصل تھی۔
سردار عبدالقیوم نیازی اگرچہ ماضی میں بھی جیتتے رہے اور ماضی میں مسلم کانفرنس سے کامیاب ہوتے رہے۔تاہم اس بار انہوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔
انتخابات میں کامیابی کے بعد عبدالقیوم نیازی وہ ممبر تھے جن کا انتخاب سے قبل وزیراعظم کے عہدہ کے لیے دور دور تک کوئی نام نہ تھا۔ اس وقت وزیراعظم کی دوڑ میں موجودہ صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور اسلام آباد میں ایک بہت بڑے شاپنگ مال کے ارب پتی بزنس مین سردار تنویر الیاس کے درمیان مقابلہ دکھائی دے رہا تھا، لیکن وزیراعظم عمران خان نے توقعات کے برعکس سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیراعظم نامزدکر دیا۔
اس وقت بھی پارٹی میں اگرچہ مزاحمت دیکھنے میں آئی، تاہم عمران خان کے فیصلے کے خلاف کوئی نہ بول سکا اور عبدالقیوم نیازی وزیر اعظم بن گئے۔
عبدالقیوم نیازی کے ساتھ ہوا کیا؟
آٹھ ماہ تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز رہنے والے عبدالقیوم نیازی کے ساتھ آخر ہوا کیا؟ اس بارے میں پی ایف یو جے کے سابق صدر اور کشمیر امور پر کام کرنے والے سینئر صحافی افضل بٹ کا کہنا تھا کہ اس عمل میں پیسوں کی چمک نظر آئی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر عمران خان اس پر مکمل خاموش رہے ہیں۔
افضل بٹ کے بقول انہیں عبدالقیوم نیازی نے بتایا ہے کہ پہلے کشمیر کونسل میں ممبر کی تعیناتی کے لیے سابق وزیر امور کشمیر علی امین گنڈہ پور نے مبینہ طورخرید و فروخت کی اور پھر جن دنوں عمران خان وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے، انہی دنوں ایک بار پھر انہی کی جماعت کے ساتھیوں نے چمک کی وجہ سے عبدالقیوم نیازی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی۔
افضل بٹ کے مطابق، عبدالقیوم نیازی نے عمران خان کو بتایا کہ ان کے خلاف انہی کے ساتھی تحریک عدم اعتماد لیکر آرہے ہیں لیکن ان کی طرف سے ایک بار پھر خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف شفاف انتخابات کا دعویٰ کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف عزم لے کر ہی سیاست کے میدان میں اتری ہے۔
افضل بٹ کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پاکستان کےزیرانتظام کشمیر کے اپوزیشن ارکان نے بھی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار ہی کھڑا نہیں کیا، جیتنے کے لیے 27 ووٹ درکار تھے اور اپوزیشن کے پاس 20 ووٹ موجود تھے، ایک ووٹ عبدالقیوم نیازی کا بھی مل سکتا تھا اور اس طرح صرف چھ ووٹ کم ہوتے اور مقابلہ یا لڑنے کی کوشش کی جاسکتی تھی لیکن اپوزیشن نے مقابلہ ہی نہیں کیا۔
سردار تنویرالیاس وزیراعظم بن گئے
سردار تنویر الیاس پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے 14 ویں وزیراعظم ہیں۔ اب سے چند سال قبل تک ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا اور وہ صرف مشرق وسطیٰ میں مختلف ممالک میں پھیلا ہوا اپنا کاروبار چلاتے تھے۔ چند سال قبل انہوں نے اسلام آباد کے وسط میں ایک بہت بڑے شاپنگ مال کے لیے چھ ارب کی زمین خریدی اور تین بلندوبالا ٹاور کھڑے کیے اور اس کے بعد ان کے سیاست دانوں کے ساتھ رابطے بڑھنے لگے اوروہ اہم حکومتی عہدوں پر بھی رہے جن میں پنجاب میں سرمایہ کاری بورڈ کے چئیرمین کا عہدہ بھی شامل ہے۔
بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور اس بارپاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقہ باغ ایل اے 15 سے الیکشن جیت گئے اور اب عبدالقیوم نیازی کو ہرا کر وزیراعظم کے عہدہ پر فائز ہوگئے ہیں۔
افضل بٹ کے مطابق سردار تنویر کے لیے ابھی بہت سے چیلنجز باقی ہیں۔ کشمیر کے آئین کے مطابق صرف 16 وزرا اور دو مشیر رکھنے کی گنجائش ہے۔ ساتھ میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے دو عہدے ہو گئے، اس طرح 32 افراد کی اکثریت والی اسمبلی میں ابھی بھی دس یا گیارہ رکن ایسے ہیں جو عہدوں کے بغیر ہوں گے اور اگر انہیں دوسری جانب سے کوئی اچھی پیشکش آئی تو حکومت کی تبدیلی کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آزاد کشمیر میں تمام معاملات کو اسلام آباد سے کنٹرول کرنے کی روایت کو ختم کرنا ہوگا، ورنہ، بقول ان کے،'' اس کے بغیر وہاں بھی لولی لنگڑی جمہوریت ایسے ہی چلتی رہے گی''۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں سردار عبدالقیوم نیازی وزارت عظمیٰ سے محروم ہوگئے لیکن آخری پریس کانفرنس میں اپنی ہی جماعت سے گلے کرنے کے علاوہ آخر میں انہوں نے ایک قطعہ پڑھا جس میں وہ اپنی حکومت جانے کا سب قصہ بتا گئے۔ان کا کہنا تھا:
''یہاں تہذیب بکتی ہے ، یہاں فرمان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بدلو یہاں ایمان بکتے ہیں
محبت دیکھ لی میں نے زمانے بھر کے لوگوں کی
جہاں کچھ دام زیادہ ہوں وہاں انسان بکتے ہیں۔''