اگر نومبر میں ہیلری کلنٹن صدر منتخب ہو جاتی ہیں، تو ری پبلیکن اس ہفتے کے معاملات کو انتخابی دوڑ کا فیصلہ کُن موڑ قرار دسے سکتے ہیں۔
ری پبلیکن پارٹی کے رہنما حالیہ دِنوں ہونے والی قومی اور فیصلہ کُن ریاستوں میں ووٹنگ پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جس میں ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے ری پبلیکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ پر سبقت حاصل کی ہے۔
نیو ہیمپشائر، مشی گن اور پنسلوانیا کی فیصلہ کُن ریاستوں میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں میں کلنٹن کو ٹرمپ پر واضح سبقت حاصل ہوگئی ہے۔ اس سے قبل ’سی این این‘ اور ’این بی سی نیوز‘ نے سروے کرائے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کم از کم آٹھ پوائنٹ سے پیچھے ہیں۔
رائے عامہ کے یہ جائزے گذشتہ ہفتے منعقد ہونے والے ڈیموکریٹک نیشنل کنوینشن کے بعد سامنے آئے ہیں، جہاں ایسا لگتا ہے کہ کلنٹن کو پانچ سے چھ پوائنٹ کا فائدہ ہوا ہے، جو پارٹی کے کسی کنویشن کے بعد عام سی بات ہے۔
لیکن، یہ اِس بات کی بھی غماز ہے کہ ٹرمپ تواتر سے متنازع معاملات سے دوچار رہے ہیں، جن کے باعث نہ صرف ڈیموکریٹس کی جانب سے منفی ردِ عمل سامنے آیا ہے بلکہ اس میں چند معروف ری پبلیکن رہنما بھی شامل ہیں۔
’’ہم بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں‘‘: ٹرمپ
اپنی انتخابی مہم کو جاری رکھتے ہوئے، ٹرمپ نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا ہے، حالانکہ ری پبلیکن پارٹی کے رہمناؤں نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
جیکسن ویل میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ہے کہ اُن کی انتخابی مہم بہتر طور پر چل رہی ہے اور نومبر میں کامیابی کے حصول کی جانب جا رہی ہے۔ ٹرمپ نے تالیوں کی گونج میں کہا کہ ’’اس لیے، میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ انتخابی مہم بہتر چل رہی ہے۔ یہ کبھی اتنی متحد نہیں تھی‘‘۔
ٹرمپ کا یہ ہفتہ مشکلات کا شکار رہا، جس کا آغاز خضر اور غزالہ خان کے ساتھ بیانات سے ہوا، جو سنہ 2004 میں عراق جنگ میں ہلاک ہونے والے امریکی فوج کے کپتان، ہمیوں خان کے امریکی مسلمان والدین ہیں۔
خضر خان نے گذشتہ ہفتے فلاڈیلفیا میں منعقد ہونے والے ڈیموکریٹک نیشنل کنویشن میں ٹرمپ کو ہدف تنقید بنایا، جب کہ اُن پر ٹرمپ کے جوابی وار کے نتیجے میں اُنھیں ری پبلیکن پارٹی کے اہم رہنما اور ایوان نمائندگان کے اسپکیر پال رائن اور اریزونا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر، جان مکین کی جانب سے منفی ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ مکین کے بقول، ’’نہ صرف یہ کہ ہمیں اُن کی عزت کرنی چاہیئے بلکہ قربانیاں دینی والے اہل خانہ کے ساتھ ہم محبت کا اظہار کرتے ہیں‘‘۔
ٹرمپ نے آئندہ کے پرائمری انتخابات میں رائن اور مکین کی حمایت سے انکار کرکے پارٹی کے رہنماؤں سے تنقید کی راہ ہموار کی۔
ایسے میں جب ٹرمپ کے گرد تنازعات کا شمار بڑھ رہا ہے، کچھ ری پبلیکن ایسے بھی ہیں جنھوں نے انتخابی مہم کے دوران برملہ اُن کے غیر ذمہ دارانہ انداز پر پریشانی کا اظہار کیا ہے، جس کے باعث ہیلری کلنٹن کو فائدہ پہنچ رہا ہے اور سینیٹ اور ایوان نمائندگان میں اکثریت کے حصول کی راہ میں ری پبلیکنز کی امیدیں بکھر رہی ہیں۔
’یونیورسٹی آف ورجینیا‘ کے ایک تجزیہ کار، کائیل کونڈک کے بقول، ’’اُنھیں اب لوگوں کو قائل کرنا ہوگا کہ وہ صدارتی عہدے کے اہل ہیں اور اُن کا مزاج صدارت کے قابل ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتا کہ اُن کا انداز، خاص طور پر خان فیملی کے ساتھ الجھنا، اِس ضمن میں، کسی طور مدد گار ثابت ہو رہا ہے‘‘۔
کونڈک کے ایک سینئر، لیری سباتو نے جمعرات کو ’الیکٹورل کالج‘ کے اندازے پیش کرتے ہوئے کہا کہ متوقع طور پر کلنٹن کو 347 الیکٹورل ووٹ پڑ سکتے ہیں، جب کہ خیال ہے کہ ٹرمپ کو 191 ووٹ مل سکتے ہیں‘‘۔ سباتو یونیورسٹی آف ورجینیا میں ’سینٹر فور پالیٹکس‘ کے سربراہ ہیں۔
تازہ ترین اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ کئی ایک اہم ریاستیں جن میں کولوراڈو اور ورجینیا بھی شامل ہیں، کلنٹن کی جیت کے امکانات زیادہ ہیں، جب کہ ورجینیا اُن کی پارٹی کے نائب صدارت کے امیدوار، سینیٹر ٹِم کین کی آبائی ریاست ہے۔