امریکی ایوان نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کے حوالے سے سماعت جاری ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ اور ان کی سیاسی جماعت رپبلکن پارٹی ان الزامات کی تردید کر رہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کو فوجی امداد کے بدلے اپنے سیاسی حریف کے خلاف تحقیقات کرنے پر مجبور کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ امریکی عوام اور خاص طور پر صدر ٹرمپ کے حامیوں پر اس اقدام کے کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
مواخذے کی سماعت کے حوالے سے یہ سوال بھی بار بار گردش کر رہا ہے کہ کیا صدر ٹرمپ نے یوکرین کے لئے فوجی امداد واقعی اس وقت تک روک دی تھی جب تک یوکرین ان کے سیاسی حریف سابق نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کر دیتا۔
اس ہفتے پیش کی جانے والی شہادتوں میں صدر ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈی جولیانی اور یورپین یونین کے لئے امریکی سفیر گورڈن سونڈلینڈ نے یوکرین کی حکومت پر اس سلسلے میں دباؤ ڈالنے کی کوششوں پر بات کی۔
جبکہ جمعرات کے روز امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی کونسل میں روسی امور کی اعلیٰ ترین ماہر فایونا ہِل نے اس پر اپنی پریشانی اور مایوسی کا اظہار کیا تھا کہ سفیر سونڈلینڈ نے جولائی میں یوکرین کے صدر کو سابق نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے اعلان کے بدلے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی پیشکش کرنے کی کوشش کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک خالصتاً داخلی سیاسی معاملے کے لئے کام کر رہے تھے جب کہ ہم نیشنل سیکیورٹی سے متعلق خارجہ پالیسی کے معاملات دیکھ رہے تھے اور یہ دونوں چیزیں ایک ہی نقطے پر مرتکز ہو گئیں۔
فایونا ہل نے رپبلکن پارٹی کے اس مؤقف کو بھی ہدف تنقید بنایا کہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں روس کی بجائے یوکرین نے مداخلت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک افسانوی بیانیہ ہے جسے روسی سیکیورٹی سروس مسلسل سامنے لائی ہے۔ بدقسمتی سے حقیقت یہی ہے کہ روس ہی وہ غیر ملکی طاقت تھی جس نے 2016 میں ہمارے جمہوری اداروں کو منظم طور پر نشانہ بنایا تھا۔
درایں اثنا صدر ٹرمپ اپنا اہم بیانیہ دہرا رہے ہیں جس میں ان کا کہنا تھا، ’’یہ امریکہ کے صدر کے حتمی الفاظ ہیں۔ مجھے کچھ نہیں چاہئیے۔
صدر ٹرمپ بدھ کے روز سفیر سونڈلینڈ کی گواہی کا حوالہ دے رہے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی فون کال کے دوران یوکرین کے صدر سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ وہ کسی سودے بازی کے خواہش مند نہیں ہیں۔
رپبلکن پارٹی ان کے دفاع میں اس بات پر توجہ دے رہی ہے۔ جارج میسن ہونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر جنیفر وکٹر کا کہنا ہے کہ رپبلکن پارٹی کے ارکان اس بیانیے پر انحصار کر رہے ہیں، باوجودیکہ بہت سے گواہوں نے وہاں آ کر یہ وضاحت کی ہے کہ quid pro quo یا سودے بازی کا مطلب کیا ہے اور کیا ایسے الفاظ کے استعمال سے اس بات کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک غیر مناسب اقدام تھا۔ لہذا منطقی اعتبار سے اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں نکلتا۔
سفیر سونڈلینڈ نے 9 ستمبر کو صدر ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کا حوالہ دیا جب ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک ارکان نے یوکرین کی فوجی امداد روکنے کے معاملے کی چھان بین کا اعلان کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ نے خود کو فون گفتگو کے حوالے سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسی تفصیلات بیشتر امریکیوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گی۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ہینز نوئل کہتے ہیں کہ اس بات کی وضاحت ہونی چاہئیے کہ کیا صدر ٹرمپ یوکرین کے حامی ہیں یا اس کے خلاف؟ حقیقت میں صورت حال کیا ہے؟ زیادہ تر ووٹروں کے لئے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لہذا زیادہ تر ووٹر مستند ذرائع پر بھروسہ کریں گے تاکہ صورت حال واضح ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیموکریٹک ارکان ڈیموکریٹک ذرائع اور رپبلکن ارکان رپبلکن ذرائع پر انحصار کریں گے۔
فی الحال دونوں جماعتوں سے ماورا امریکیوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اس سماعت سے صدر ٹرمپ کے مواخذے یا ان کی حمایت سے متعلق ان کے خیالات تبدیل نہیں ہوں گے۔