امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کو کابل میں شادی کی ایک تقریب میں ہونے والے مہلک حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ کی طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن سمجھوتہ جلد طے پانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
امریکی ریاست نیو جرسی میں اتوار کو 'ایئر فورس ون' میں سوار ہونے سے قبل بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو 13 ہزار کی سطح یا اس سے کچھ کم کرنے کا خوہاں ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ان کے بقول امریکہ افغانستان میں انٹلی جینس کا منظم نظام بھی چھوڑ کر جانا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک وجہ سے افغانستان میں ہے تاکہ ‘‘ یہ دہشت گردی کی لیبارٹری نہ بن جائے’’ اور ان کے بقول امریکہ ایسا نہیں ہونے دے گا۔
صدر ٹرمپ کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کابل میں شادی کی ایک تقریب میں دہشت گرد حملے سے 60 سے زیادہ افراد ہلاک اور 180 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروپ داعش نے قبول کی ہے۔
ادھر امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ افغان امن عمل بشمول افغان دھڑوں کے درمیان بات چیت کے عمل کو تیز کیا جائے۔ خلیل زاد کے بقول افغان امن عمل کی کامیابی سے افغان ایک ایسی مضبوط پوزیشن پر آ جائیں گے کہ وہ داعش کو شکست دے سکیں۔
افغانستان میں تشدد کے واقعات میں ایک ایسے وقت اضافہ ہوا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت اہم مرحلے پر پہنچ گئی ہے اور تجزیہ کاروں کے خیال میں اس تناظر میں داعش کا مبینہ حملہ اس عمل کو بظاہر ناکام بنانے کی کوشش ہے۔
افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ‘‘ ان (داعش) کو یہ تشویش ہے کہ اگر امن معاہدہ ہو گیا اور طالبان اس نظام کا حصہ بن گئے تو طالبان بھرپور طریقے سے داعش کے خلاف جنگ کریں گے اور ان کے خلاف ایک بڑا اتحاد بن جائے گا۔’’
تجزیہ کار رحیم اللہ کا مزید کہنا ہے کہ داعش نہ صرف افغانستان بلکہ ان کے خیال میں خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی خطرہ ہے اسی لیے، ان کے بقول، خطے کے دیگر ملکوں بشمول چین، روس، پاکستان اور ایران اس بات کے خواہاں ہیں کہ طالبان افغانستان کے سیاسی نظام کا جلد از جلد حصہ بن جائیں، فائر بندی ہو جائے اور ایک امن معاہدہ طے پا جائے تاکہ طالبان بھی داعش مخالف اتحاد کا حصہ بن جائیں۔
حال ہی میں صدر ٹرمپ کی قومی مشیروں کے ساتھ بات چیت کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات آگے بڑھ رہے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ ایک سال سے جاری ہیں اور رواں ماہ کے شروع میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ختم ہونے والی بات چیت کے آٹھویں دور کے بعد فریقین کے درمیان جلد امن سمجھوتہ طے پانے کا مکان ظاہر کیا جا رہا ہے تاہم ابھی تک نہ تو امریکہ اور نہ ہی افغان طالبان کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے آیا ہے کہ یہ معاہد کب طے پائے گا۔