وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے منگل کے روز ٹیلی فون پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے گفتگو کی، جس سے ایک ہی روز قبل روسی سربراہ نے شام کے راہنما بشار الاسد سے بات چیت کی تھی، جس میں شام میں تقریباً سات برس سے جاری لڑائی کو ختم کرنے کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے پر بات کی گئی تھی۔
گذشتہ ہفتے ویتنام میں منعقدہ جنوب مشرقی ایشیائی سربراہ اجلاس کے دوران، ٹرمپ اور پوٹن نے کئی بار غیر رسمی طور پر بات چیت کی تھی۔
دیگر معاملات کے علاوہ دونوں نے لڑائی کے شکار شام کے مستقبل کے بارے میں اصول طے کرنے سے متعلق گفتگو کی، جہاں تقریباً 400000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ لڑائی سے بچنے کے لیے لاکھوں افراد اپنے گھربار چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں۔
کریملن نے منگل کے روز بتایا ہے کہ شام سے متعلق روسی تجاویز پر بات چیت کے لیے اسد کو بحیرہٴ اسود کے صحت افزا مقام، سوچی مدعو کیا گیا، جس کے بعد بدھ کو پیوٹن ایک سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے، جس میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور ایرانی صدر حسن روحانی شریک ہوں گے۔
سنہ 2015 کے اواخر سے فضائی حملے جاری رکھ کر شامی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے والے گروہوں کے خلاف روس نے اسد کی حکومت کی مدد کی ہے، ایرانی لڑاکے بھی دمشق کی مدد کر رہے ہیں جب کہ ترکی شام کے مخالفین کی حمایت کرتا ہے۔
اپنا اقتدار بچنے پر اسد نے پوٹن کا شکریہ ادا کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’ہمارے ملک کو بچانے کے لیے روس کی جانب سے کی گئی تمام کوششوں پر ہم اُن کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘‘۔
کریملن کے مطابق، پوٹن نے اسد کو بتایا کہ روس کی ’’فوجی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے۔ روسی فوج کا شکریہ، ریاست کے طور پر شام کو بچا لیا گیا ہے۔ شام کی صورت حال کو مستحکم کرنے کے لیے بہت کچھ کیا گیا‘‘۔
اُنھوں نے اسد کو سراہا، اس پیش گوئی کے ساتھ کہ شام میں دہشت گردی کو ’’یقیناً‘‘ شکست ہوگی۔