|
امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے سیاسی حریفوں سے 'انتقام' لینے کے بیانات میں تیزی آ رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ سن 2015 میں سیاسی میدان میں اُترنے کے بعد سے ہی اس طرزِ سیاست کے ذریعے اپنے حامیوں کو راغب کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ برس قدامت پسند حلقوں کی سالانہ کانفرنس 'کنزرویٹو پولیٹیکل ایکشن کانفرنس' سے خطاب کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میں آپ کا جنگجو ہوں، میں آپ کا انصاف ہوں اور ان لوگوں کے لیے بدلہ ہوں جو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنے ہوں۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن گزشتہ ماہ نیویارک کی عدالت کی جانب سے 34 سنگین جرائم کے مرتکب قرار دیے جانے کے بعد اب ٹرمپ اپنے حامیوں کے لیے بدلہ لینے کے بجائے خود کو درپیش قانونی مشکلات کے ردِعمل میں ایسے بیانات دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کو ان مقدمات میں فی الحال سزا نہیں سنائی گئی۔
سابق صدر نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر میں ان کے خلاف متعدد مجرمانہ الزامات انہیں دوبارہ صدارتی انتخاب جیتنے سے روکنے کی سازش کا نتیجہ ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنے اُوپر قائم مقدمات کا ذمہ دار صدر بائیڈن کو قرار دیتے ہیں۔ اُن کا یہ دعویٰ بھی رہا ہے کہ کچھ ایسے افراد جو بائیڈن پر اثرانداز ہوتے ہیں وہ بھی اُن کی قانونی مشکلات کے ذمے دار ہیں۔ لہذٰا اگر وہ صدر منتخب ہوئے تو اُن کے پاس جواز ہو گا کہ وہ وفاقی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کریں۔
گزشتہ ہفتے 'فاکس نیوز' کو دیے گئے انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "یہ انتخابات ہونے کے بعد میرا یہ حق ہو گا کہ جو کچھ ان لوگوں نے کیا میں ان کے پیچھے جاؤں اور یہ بہت آسان ہو گا کہ کیوں کہ یہ جو بائیڈن ہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ہفتے کے آخر میں جب ماہر نفسیات فل میک گرا نے ٹرمپ کا انٹرویو کیا تو یہ موضوع پھر سامنے آیا۔ میک گرا ایک معروف ٹیلی ویژن میزبان ہیں اور انہیں ڈاکٹر فل کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اُنہوں نے ٹرمپ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ بطور صدر مخالفین سے بدلہ لینا ان کی دیگر سیاسی ترجیحات کی راہ میں حائل ہو جائے گا۔
جواب میں ٹرمپ نے کہا کہ "یہ بات ٹھیک ہے کہ بدلہ لینے میں وقت لگتا ہے اور کبھی کبھی انتقام کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ فل مجھے ایمان دار ہونا پڑے گا۔ آپ جانتے ہیں کبھی کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔"
ٹرمپ کے ایسے حلیف جو ان کی جیت کی صورت میں اعلی عہدوں کے امیدوار ہیں پہلے ہی ری پبلکن پارٹی کے عہدیداروں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سابق صدر کے سیاسی دشمنوں کو نشانہ بنانے کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال کریں۔ ان میں ٹرمپ کے سابقہ حکومت میں مشیر اسٹیفن ملر اور اسٹیو بینن شامل ہیں۔
ڈیمو کریٹس کا ردِعمل
صدر بائیڈن نے ٹرمپ کے بدلہ لینے کے عزم پر کئی بار تنقید کی ہے۔ البتہ انہوں نے ٹرمپ کے نیویارک میں حالیہ مقدمے کے حوالے سے کم ہی بات کی ہے۔
تاہم نشریاتی ادارے 'اے بی سی نیوز' کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں صدر بائیڈن نے اپنے پیش رو کو نظام انصاف پر مسلسل حملے کرنے اور اسے کرپٹ قرار دینے پر تنقید کی ہے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے خلاف فیصلے کو قبول کریں۔
صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ "قانون کی حکمرانی اور اداروں کو نیچا دکھانے کا سلسلہ بند کریں۔ ٹرمپ کی پوری کوشش یہی ہے۔ وہ اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دیکھیں ان کا منصفانہ ٹرائل ہوا۔ جیوری نے اس طرح بات کی جیسے وہ تمام معاملات میں کرتے ہیں اور اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
ہفتے کے آخر میں مشی گن میں گفتگو کرتے ہوئے نائب صدر کاملا ہیرس نے ٹرمپ کے بارے میں کہا کہ "وہ جھوٹ پھیلاتے ہیں کہ ہماری انتظامیہ اس کیس کو کنٹرول کر رہی ہے جب کہ سب جانتے ہیں کہ یہ ریاستی استغاثہ تھا اور اب وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی دوسری مدت کو انتقام کے لیے استعمال کریں گے۔"
نائب صدر کا مزید کہنا تھا کہ "سادہ الفاظ میں ڈونلڈ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ یہ اس شخص کو نااہل قرار دینے کے لیے کافی ہے جو ملک کا صدر بننا چاہتا ہے۔"
سیاسیات کے ماہر جیمز اے مورون جو کہ براؤن یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اپنے سیاسی حریفوں کو نشانہ بنانے کے لیے وفاقی حکومت کی طاقت کو استعمال کرنے کے ٹرمپ کے واضح عہد کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔