امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو طالبان رہنما ملا برادر سے فون پر گفتگو کی۔ کسی امریکی سربراہ کا طالبان سے یہ پہلا براہِ راست رابطہ تھا۔
اس کال کا اعلان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹوئٹ میں کیا۔ بعدازاں صدر ٹرمپ نے اس کی تصدیق کی۔
ملا برادر اور امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے تین دن پہلے ہی ایک سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں جس میں افغانستان میں لڑائی بند کرنے اور امریکی افواج کے انخلا کی بات کی گئی ہے۔
سمجھوتے کے مطابق 10 مارچ سے بین الاقوامی فوج کا افغانستان سے انخلا شروع ہوگا۔ اس کے علاوہ طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات بھی ہوں گے۔
لیکن امن کی کوششوں کو اس وقت مشکل کا سامنا پیش آیا جب افغان صدر اشرف غنی نے معاہدے کی ایک شق کے مطابق طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس بارے میں پہلے گفت و شنید ہونی چاہیے۔ طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ مذاکرات سے پہلے ان کے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
SEE ALSO: امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخطٹیلی فونک گفتگو کے بارے میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’’ملا برادر نے صدر ٹرمپ سے کہا کہ یہ افغانوں کا بنیادی حق ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو، اس سمجھوتے کے تمام نکات پر عمل درآمد ہو تاکہ افغانستان میں امن آسکے۔‘‘
ترجمان کے مطابق 35 منٹ کی بات چیت کے دوران صدر ٹرمپ نے ملا برادر سے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو افغان صدر سے بات کریں گے تاکہ بین الافغان مذاکرات میں حائل رکاوٹ کو ختم کیا جاسکے۔
وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ نے صحافیوں سے اس فون کال سے متعلق مختصر گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ ’’وہ افغانستان سے متعلق بات کر رہے ہیں۔ لیکن ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ دراصل ہم نے طالبان رہنما سے بہت اچھی گفتگو کی۔‘‘