صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں آئندہ صدارتی انتخابات موخر کرنے کا ذکر کرتے ہوئے سوالیہ انداز اختیار کیا ہے۔
جمعرات کی صبح اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں، صدر ٹرمپ نے کہاہے کہ ڈاک کے ذریعے ہونے والی رائے دہی سے سن 2020ء کے صدارتی انتخابات ''تاریخ کے سب سے زیادہ ناقص اور دھوکہ دہی کے شکار انتخابات ہونگے''۔
اپنی ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ''یہ بات امریکہ کے لئے شرمندگی کا باعث ہوگی''۔
صدر ٹرمپ نے تین سوالیہ نشان لگا کر مکمل کئے گئے اپنے ٹویٹر پیغام میں پوچھا ہے کہ '' اُس وقت تک انتخابات کو موخر کر دیا جائے، جب تک لوگ مناسب، درست اور محفوظ انداز میں سلامتی کے ساتھ ووٹ نہ دے سکیں؟''
امریکی سینیٹ کی جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین لنڈسے گراہم نے کہا ہے کہ اگرچہ انہیں بھی انتخابی فراڈ کے متعلق خدشات ہیں ، لیکن اتنے نہیں کہ انتخابات ملتوی کر دیئے جائیں۔
گراہم نے صحافیوں کو بتایا ،" انتخابات میں تاخیر کرنا درست جواب نہیں ہے"۔
ریاست ایلی نوائے کے رکن کانگریس روڈنی ڈیوس نے ٹویٹ کیا ، "اس سال کے صدارتی انتخابات میں کوئی تاخیر نہیں ہوگی"۔
ڈیوس نے لکھا کہ "انتخابات کی تاریخ کانگریس طے کرتی ہے ، یہ قانون کے مطابق 3 نومبر کی طے شدہ تاریخ کو ہی ہونگے"
روڈنی ڈیوس، امریکی ایوان نمائیندگان کی اس انتظامی کمیٹی کے ریپبلکن عہدیدار ہیں ، جس کے دائرہ اختیار میں صدارتی انتخابات کا انعقاد کروانا ہے۔
سینیٹ کے اقلیتی رہنما چک شومر نے کہا کہ صدرٹرمپ "کورونا وائرس کے بحران میں اپنی مکمل ناکامی سےتوجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"
ایوان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے امریکی آئین کے آرٹیکل II ، سیکشن 1 کو ٹویٹ کرتے ہوئے جواب دیا: "کانگریس الیکٹرز کے انتخاب کے وقت کا تعین کرسکتی ہے ، اور جس دن وہ اپنا ووٹ ڈالیں گے ، وہ دن پورے امریکہ میں یکساں ہوگا۔ "
کیا صدر ٹرمپ کے پاس اس سال تین نومبر کے انتخابات کو موخر کرنے کا اختیار موجود ہے؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کے لئے تین نومبر کی تاریخ طے ہے۔ اور یہ تاریخ کانگریس آئین کے تحت مقرر کرتی ہے۔
صدارتی تاریخ کے ماہر اور امریکی تاریخ پر دس کتابوں کے مصنف، مائیکل بیش لوس نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ ''انتخابات کو موخر کرنے سے امریکی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔"
بیش لوس نے کہا کہ خانہ جنگی اور دوسری جنگ عظیم سمیت امریکی تاریخ میں کبھی بھی انتخابات کو موخر کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔
'ڈیمو کریٹس افراتفری پھیلا رہے ہیں'
صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ترجمان ہوگن گڈلے نے وضاحت کی ہے کہ صدر نے صرف سوال اُٹھایا تھا کیوں کہ ڈیمو کریٹس ڈاک کے ذریعے ووٹنگ پر اصرار کر کے افراتفری پھیلا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک بیان میں ہوگن کا کہنا تھا کہ ڈیمو کریٹس کرونا وائرس کی آڑ میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کرانے پر زور دے رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہر ووٹر کو بیلٹ پیپر گھر پہنچایا جائے گا چاہے وہ اسے طلب کرے یا نہ کرے۔
ہوگن کا کہنا تھا کہ ووٹرز لسٹیں غلط ایڈریسز سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو کہیں اور منتقل ہو چکے یا اب وہ امریکی شہریت نہیں رکھتے جب کہ بہت سے اب دنیا میں بھی نہیں ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ڈاک کے ذریعے ووٹنگ سے نتائج میں تاخیر اور افراتفری پھیلے گی، جیسا کہ ہم نے نیو یارک پرائمری کے انتخاب میں دیکھا، جہاں ایک ماہ بعد بھی واضح نہیں ہو سکا کہ کون جیتا ہے۔"
امریکہ کی سائیبر سکیورٹی اور انفراسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر، کرس کریبز نے 17 جولائی کو واشنگٹن کے بروکنگز انسٹیٹیوشن میں ایک سوال پر بتایا تھا کہ سن 2020ء کے انتخابات، امریکہ کی جدید تاریخ کے سب سے محفوظ انتخابات ہونگے۔
کریبز کا کہنا تھا کہ کم از کم 92 فیصد امریکی ریاستوں میں اب ایسا نظام موجود ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر ڈالے گئے ووٹ کا کاغذی ریکارڈ بھی موجود ہو، جس سے انتخابی نتائج کی جانچ پڑتال آسان ہو جائے گی اور یہ بھی یقینی ہو جائے گا کہ کوئی بھی گنتی کے بعد اعداد کو تبدیل نہ کر سکے۔
کریبز نے مزید کہا تھا کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی وجہ سے، بہت سی ریاستیں ڈاک کے ذریعے رائے دہی کی طرف جا سکتی ہیں، اور 92 فیصد کے عدد میں مزید اضافے کا امکان ہے۔