رسائی کے لنکس

صدر ٹرمپ نے اپنے دیرینہ دوست راجر اسٹون کی سزا معاف کر دی


راجر اسٹون (فائل فوٹو)
راجر اسٹون (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے مشیر اور دیرینہ دوست راجر اسٹون کی سزا معاف کر دی ہے۔

اسٹون کو امریکی محکمۂ انصاف نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے سمیت دیگر الزامات کے تحت تین سال چار ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

جمعے کو وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسٹون سمیت اس کیس میں ملوث دیگر افراد پہلے ہی نامناسب رویے کا سامنا کر چکے ہیں۔ لہذٰا اسٹون اب آزاد شہری ہیں۔

امریکی قانون صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ مواخذے کے علاوہ امریکہ کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کو معاف کر سکتے ہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کے مخالفین یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے قریبی ساتھیوں کو نوازنے کے لیے اس اختیار کا غلط استعمال کرتے ہیں۔

صدر کی جانب سے سزا معاف کیے جانے کے باوجود راجر اسٹون کا جرم ختم نہیں ہو گا۔ البتہ وہ جیل جانے سے بچ جائیں گے۔

راجر اسٹون کئی دہائیوں سے صدر ٹرمپ کے مشیر ہیں۔ وہ 2016 کی صدارتی مہم کے دوران بھی ٹرمپ کے ساتھ تھے۔ وہ مختلف مواقع پر سزا معافی کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ چند روز قبل اُنہوں نے اپنی انسٹا گرام پوسٹ میں کہا تھا کہ اگر وہ کرونا وبا کے دوران جیل میں گئے تو اُن کی زندگی برباد ہو جائے گی۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسٹون کو ملنے والی سزا پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ختم کرنے کا عندیہ دیتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کہتے رہے ہیں کہ محکمۂ انصاف کی جانب سے ابتداً اسٹون کو سات سے نو سال قید کی سزا دینے کی سفارش خوفناک اور ناانصافی تھی۔

راجر اسٹون (فائل فوٹو)
راجر اسٹون (فائل فوٹو)

صدر ٹرمپ کی ان ٹوئٹس پر اٹارنی جنرل ولیم بر نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ صدر کے ایسے بیانات سے اُن کے لیے اپنا کام کرنا بہت مشکل ہے۔

ولیم بار نے راجر اسٹون کو کم سے کم سزا دینے کی سفارش کی تھی۔

واشنگٹن جیوری نے نومبر 2019 میں راجر اسٹون کو سات مختلف الزامات کے تحت سزا سنائی تھی جن میں کانگریس کی تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنا، پانچ جھوٹے بیانات جمع کرانے اور شواہد میں ردوبدل شامل تھے۔

البتہ اسٹون کا یہ موقف رہا ہے کہ اُن کے خلاف یہ کارروائی سیاسی بنیادوں پر کی گئی۔

امریکی ایوانِ نمائندگان کی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے سربراہ ایڈم شیف نے صدر ٹرمپ کے اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ صدر نے اسٹون کی سزا معاف کر کے واضح کر دیا ہے کہ امریکہ میں انصاف کے دو نظام ہیں۔ ایک جس میں وہ اپنے مجرم دوستوں کو معاف کرتے ہیں اور دوسرا عام لوگوں کے لیے ہے۔

امریکی محکمۂ انصاف نے 2016ء کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کی ذمہ داری مئی 2017ء میں رابرٹ ملر کو سونپی تھی۔ بعد ازاں ملر تحقیقات کا دائرہ صدر ٹرمپ اور اُن کے مشیروں کی جانب سے تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے مبینہ الزامات تک وسیع ہو گیا تھا۔

ملر نے اپنی رپورٹ میں صدر کو انصاف اور تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام سے مکمل بری الذمہ قرار نہیں دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے صدر اور اُن کے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی سفارش نہیں کی تھی بلکہ یہ معاملہ محکمۂ انصاف پر چھوڑ دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG