اقوامِ متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے تین سے پانچ ہزار جنگجو افغانستان میں موجود ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کو ارسال کی گئی رپورٹ میں افغانستان میں طالبان کے حکومت میں آنے اور اس کے بعد شدت پسندوں کی افغانستان میں سرگرمیوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ اقوامِ متحدہ کے تحت کام کرنے والی انالیٹکل سپورٹ اینڈ سینکشن مانیٹرنگ ٹیم نے تیار کی ہے جس میں جولائی سے دسمبر 2021 تک ٹی ٹی پی سمیت دیگر شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ارسال کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) یا ترکستان اسلامک پارٹی (ٹی آئی پی) کے جنگجو افغانستان میں چین کی سرحد کے قریب صوبے بدخشاں سے بغلان، تخار اور دیگر صوبوں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ ان تنظیموں کے شدت پسندوں کی تعداد رپورٹ میں 200 سے 700 ظاہر کی گئی ہے۔
انالیٹکل سپورٹ اینڈ سینکشن مانیٹرنگ ٹیم کی رواں ماہ جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تنظمیوں کے شدت پسندوں کے القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بھی قریبی تعلق ہے اور اس کا بنیادی مقصد پاکستان اور تاجکستان سمیت خطے میں چین کے مفادات کو نشانہ بنانا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے تین ہزار سے 5500 جنگجو موجود ہیں۔ اس تنظیم کے جنگجوؤں کی قیادت نور ولی محسود کر رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے 2004 میں ایک قرار داد پاس کی تھی جس کا مقصد القاعدہ، طالبان، اسامہ بن لادن اور دیگر کے خلاف پابندیوں کے نفاذ کو سخت کرنا تھا۔ اس کے علاوہ پابندیوں کی فہرست میں شامل گروہوں یا افراد کی مالی معاونت روکنا بھی اس میں شامل تھا۔ اس قرار داد پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اور معاونت کے لیے ’انالیٹکل سپورٹ اینڈ سینکشن مانیٹرنگ ٹیم‘ بنائی گئی تھی۔
سیکیورٹی کونسل کو جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی اور پاکستان کی حکومت کے درمیان مصالحت کے لیے افغانستان کے طالبان کردار ادا کر رہے ہیں جس کے باعث ٹی ٹی پی کے پاکستان میں حملوں میں کمی آئی تھی۔
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں نو نومبر 2021 کو ابتدائی طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا۔ مگر ایک ماہ کے بعد 10 دسمبر کو ٹی ٹی پی نے یہ کہہ کر جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا کہ مذاکرات کے دوران جن فیصلوں پر اتفاق ہوا تھا، ان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اس سے متعلق حکومتِ پاکستان کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی بیان سامنے ںہیں آیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کے خاندان جو افغانستان منتقل ہوئے تھے وہ دوبارہ پاکستان میں آباد ہونا چاہتے ہیں جب کہ اس کے لیے ان کو ضمانت دینا ہو گی کہ وہ مقامی معاشرے میں پر امن طور پر زندگی گزاریں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں فوج نے شدت پسندوں کے خلاف متعدد آپریشن کیے ہیں جس کی وجہ سے عسکریت پسندوں اور ان کے حامیوں کو اپنے خاندانوں کے ساتھ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں منتقل ہونا پڑا تھا۔
اقوامِ متحدہ کی جولائی سے دسمبر 2021 تک کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان چھ ماہ کے دوران سب سے اہم واقعہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنا ہے۔ افغانستان ممکنہ طور پر القاعدہ اور دہشت گرد گروہوں کے لیے ایک بار پھر سے محفوظ پناہ گاہ بن سکتا ہے۔
پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ان میں سے کئی واقعات کا ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کو قرار دیا جاتا ہے جب کہ بعض کارروائیوں کی ذمہ داری خود ٹی ٹی پی نے بھی قبول کی ہے۔
افغانستان میں داعش اور القاعدہ
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں داعش بھی ایک محدود علاقےمیں موجود ہے۔ اس شدت پسند تنظیم نے کئی مہلک حملے کرکے اپنی کارروائیوں کی صلاحیت ثابت کی ہے جب کہ ان حملوں سے افغانستان کی سیکیورٹی کی پیچیدہ صورتِ حال بھی واضح ہوئی ہے۔
افغانستان میں 15 اگست 2021 کے بعد صورتِ حال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہونے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں موجود غیر ملکی جنگجوؤں کی سرگرمیاں محدود کرنے کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے حالیہ عرصے میں سب سے زیادہ آزادی میسر آئی ہے۔ البتہ ایسے شواہد نہیں ملے کہ غیر ملکی دہشت گردوں کی بڑے پیمانے پر افغانستان آمد ہوئی ہو۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بارے میں مزید کہا گیا ہے کہ القاعدہ نے ان کو حکومت میں آنے پر مبارک باد پیش کی تھی۔ اس کے بعد سے القاعدہ نے حکمت عملی کے تحت خاموشی اختیار کررکھی ہے جس کا ممکنہ مقصد یہ ہوسکتا ہے کہ طالبان اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے جو کوششیں کررہے ہیں ان میں کوئی خلل نہ آئے۔
رپورٹ میںٰ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ القاعدہ کے افغانستان میں 200 سے 400 جنگجو موجود ہو سکتے ہیں۔