کرونا وائرس: ترکی میں لاک ڈاون کا امکان

صدر اردوان

ترکی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اسکا سب سے بڑا شہر استنبول اس کا وبائی مرکز بنا ہوا ہے اور اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مکمل لاک ڈاؤن کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔

ترکی کے صدر اردوان کا اصرار ہے کہ ترکی کی معیشت کا پہیہ چلتے رہنا چاہئے۔ نامہ نگار ڈورین جونز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صدر کے اس اصرار پر بعض کاروباری لوگ بھی پریشان ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مکمل لاک ڈاؤن ضروری ہے اور استنبول شہر کے مئیر اکرم اماموگولو نے بھی یہ کہتے ہوئے استنبول کو مکمل طور سے بند کرنے کے لئے کہا۔ لیکن، شہر کی سڑکوں پر اب بھی بہت زیادہ تعداد میں لوگ موجود ہیں۔

ترکی میں مقیم پاکستانی صحافی ڈاکٹر فرقان حمید نے بتایا کہ بیس سال سے کم اور پینسٹھ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی ہے اور جس طرح پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن سے غریب طبقے کی مشکلات اور تکلیفوں میں اضافہ ہوگا۔

اسی طرح، صدر اردوان بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ معاشی سرگرمیاں مکمل طور سے بند کرنا ملک و قوم کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ملک میں ضروری پابندیاں نافذ ہیں اور حکومت صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

ڈاکٹر فرقان حمید نے بتایا کہ صدر اردوان کو ان امور پر بریفنگ دینے والے ماہرین کے پینل کے اجلاس باقاعدگی سے ہوتے رہتے ہیں اور ممکن ہے کہ وہ جلد ہی صدر اردوان کو مزید یا مکمل لاک ڈاؤن کا مشورہ دیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سال ترکی میں معاشی نمو کے لئے تین اعشاریہ پانچ فیصد کا حدف مقرر کیا گیا تھا، جس کے حاصل ہونے کا اب کوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ شہروں کے درمیان سفر پر پہلے ہی مکمل پابندی عائد ہے۔ تمام شہروں میں بیشتر کاروبار بند ہیں۔ اور زیادہ تر دفاتر بھی بند ہیں اور لوگ گھروں سے کام کر رہے ہیں۔ اس صورت میں مقررہ معاشی اہداف کا حصول ممکن نظر نہیں آتا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی ترکی کوئی سترہ ملکوں کو طبی امداد فراہم کر رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی ناممکن نہیں ہے کہ صورت حال قابو سے باہر ہوتی نظر آئے تو مشاورتی پینل صدر کو کم از کم دو ہفتے کے لئے مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کرنے کا مشورہ دے۔

لیکن، ترکی کے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز استنبول کو مکمل طور سےبند کرنا بہت بھاری قیمت ہو گی جو ترکی کو ادا کرنی پڑے گی۔

گلوبل سورس پارٹنر کے اتالیہ یاسیلادا کا کہنا ہے ملک کے سب سے بڑے شہر میں صنعتوں کو بند کرنا جن سے چالیس سے پچاس لاکھ لوگ وابستہ ہیں ایک بڑا بحران پیدا کرنا ہے، جن کو گھر بیٹھنے معاوضہ دیا جائے گا، تاکہ وہ اور ان کے متعلقین بھوکے نہ رہیں تو ترکی کے بجٹ پر کیا اثر پڑے گا، اسکا تصور ہی مشکل ہے۔

اور ایسے میں جبکہ مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہو سکتا ہے کہ استنبول اور بطور مجموعی پورے ملک کے لئے اس وائرس سے لڑنے کے لئے صحیح حکمت عملی اختیار کرنے کے لئے وقت گزرا جا رہا ہو۔