ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں اتوار کو آنے والے زلزلے کے نتیجے میں منہدم ہونے والی عمارتوں کے ملبے سے تین روز بعد دو مزید افراد کو زندہ نکال لیا گیا ہے۔
امدادی کارکنوں نے بدھ کو جن دو افراد کو زندہ ملبے سے نکالا ہے ان میں ایک 27 سالہ استانی اور ایک طالبِ علم شامل ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق اب بھی سینکڑوں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جن کے زندہ بچنے کی امیدیں تیزی سے معدوم ہورہی ہیں۔
ایران کی سرحد سے ملحق ترک علاقے میں اتوار کو آنے والے 2ء7 شدت کے زلزلے سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 461 ہوگئی ہے جبکہ 1300 زیادہ افراد زخمی ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں علاقے کے ہزاروں افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
امدادی کارکنوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود تمام متاثرہ افراد کو خیموں اور خوارک کی فراہمی تاحال ممکن نہیں ہوسکی ہے جبکہ علاقے میں موسم بھی بتدریج سرد ہوتا جارہا ہے۔
ایک اور خبر کے مطابق ترکی کی جانب سے امداد کی باضابطہ درخواست کے جواب میں اسرائیلی فوج نے متاثرہ علاقوں میں ہنگامی رہائشی یونٹس اور دیگر خصوصی آلات جلد بھجوانے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل ترکی نے زلزلے میں بے گھر ہونے والے افراد کی امداد کی اسرائیلی پیش کش مسترد کردی تھی۔
دنیا کے 90 ممالک نے ترکی کو زلزلہ زدگان کے لیے جاری امدادی سرگرمیوں میں اعانت کی پیش کش کی ہے تاہم ترک حکومت نے ابتدا میں صرف ایران اور آذربائیجان کی امداد قبول کی تھی جن کی سرحدیں زلزلہ زدہ علاقوں سے متصل ہیں ۔
عالمی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' کا کہنا ہے کہ اس کی ترک شاخ کا عملہ زلزلہ متاثرین کی امداد اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ زلزلہ سے زیادہ تر نقصان علاقے کے مرکزی شہر 'وین' سے 90 کلومیٹر شمال میں واقع 'ارکس' نامی قصبہ میں ہوا ہے جہاں زلزلے کے باعث کئی علاقوں میں بجلی اور پانی کی فراہمی منقطع ہوگئی ہے۔
زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں 'آفٹر شاکس' کا سلسلہ بھی جاری ہے اور اب تک زلزلے کے سینکڑوں جھٹکے ریکارڈ کیے جاچکے ہیں جن میں سے ایک کی شدت 4ء5 تک ریکارڈ کی گئی۔ 'آفٹر شاکس' کے باعث عوام میں سخت سراسیمگی پائی جاتی ہے۔
زلزلے کے مسلسل جھٹکوں سے خوف زدہ ہوکر 'وین' کی جیل میں موجود قیدیوں نے ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کئی اشیا کو آگ لگادی۔ قیدیوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں جیل سے کہیں اور منتقل کیا جائے۔ سیکیورٹی فورسز نے قیدیوں کے فرار ہونے کے خدشہ کے پیشِ نظر جیل کو حراست میں لے رکھا ہے۔
زلزلے کے فوری بعد اتوار کو ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب ارگان نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ زلزلے کے باعث علاقے کے دیہات میں کچی مٹی سے بنے تمام گھر منہدم گئے ہیں۔
کئی عالمی راہنماؤں نے مشکل کی اس گھڑی میں ترک عوام اور حکومت کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔
روس کے صدر دمیتری میدویدیو اور آرمینیا کے صدر رسز سرکیشین نے اپنے ترک ہم منصب عبداللہ گل کو مشترکہ ٹیلیفون کال کی اور زلزلہ سے ہونے والے جانی اور مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ان کا ملک مشکل کی اس گھڑی میں ترکی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے زلزلہ کے فوری بعد امدادی سرگرمیوں کے آغاز پر ترک حکام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی ادارہ ہر قسم کی امداد فراہم کرنے پر تیار ہے۔
واضح رہے کہ ترکی کئی ارضیاتی 'فالٹ لائنز' پر واقع ہے اور یہاں کم شدت کے زلزلے آتے رہتے ہیں۔