ترکیہ میں ایک ہفتے بعد ہونے والے صدارتی اور قومی انتخابات میں عوامی رائے کے جائزے ایک کانٹے دار مقابلے کا اشارہ کر رہے ہیں جب کہ افراط زر اور اقتصادی مسائل سے ایسا ماحول بن رہا ہے جسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے برسر اقتدار صدر رجب طیب ایردوان نے 20 سال قبل حکومت سنبھالی تھی۔
دوسری طرف طویل عرصے تک ایردوان کے سائے تلے رہنے والے ان کے سیاسی حریف کمال کلیچ دار اولوکا 14 مئی کو ہونے والے "ملک کی حالیہ تاریخ کے اہم ترین انتخاب" کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان کا وقت آ گیا ہے کہ وہ ترکیہ کو ایک نئی راہ پر گامزن کریں اور دو دہائیوں سے سیاست پر غلبہ پانے والے شخص کی میراث کو واپس لوٹائیں۔
خبر رساں ادارے’ رائٹرز‘ کے مطابق ایردوان اپنے مشکل ترین سیاسی امتحان سے بچنے کے لیے بھرپور انداز میں جدو جہد کر رہے ہیں اور اپنی میراث کو مضبوط مخالفین سے بچا نے کی سر توڑ کوشش میں ہیں۔
ایردوان کو پہلے سےہی جاری اقتصادی بحران کے سبب تنقید کا سامنا ہے ۔ رواں سال فروری میں ملک میں تباہ کن زلزلے کے وقت ان کی حکومت پر سست ردِ عمل اور بعد ازاں تعمیرات میں تیزی نہ دکھانے کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایردوان کی پالیسیاں زلزلے میں ترک زندگیوں کو بچا نے میں ناکام رہیں۔
ان الزامات کے جواب میں ایردوان، جن کے لیے سیاسی مقابلے کوئی نئی بات نہیں اور جنہو ں نے 2016 میں فوج کی جانب سے اپنی حکومت کا تختہ الٹانے کی کوشش کو ناکام بنایا تھا، کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف ایک قدرتی آفت کا ناجائز استعمال کر رہی ہے۔
SEE ALSO: ترکیہ: انتخابی سرگرمیوں سے تین دن تک دور رہنے کے بعد ایردوان کی واپسیزلزلے میں 50 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے تھے اور ایردوان نے متاثرہ علاقوں کے متعدد دورے بھی کیے جن کے دوران انہوں نے تیز تر تعمیر نو کا اعادہ کیا اور ان کمپنیوں کو سزا دینے کا وعدہ کیا جنہوں نے تباہ ہونے والی عمارات کی تعمیر میں طے کردہ قواعد کی خلاف ورزی کی۔
علاوہ ازیں انہوں نے اپنے دو عشروں کے دور میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کو متعارف کروانے، مقامی ساخت کے ڈرون بردار حملہ آور بحری جہاز کی ترک بیڑے میں شمولیت سمیت صنعتی ترقی کے کارناموں کا اکثر ذکر کیا ہے۔
انہوں نے بحیرہ اسود کے ذخائر سے ترکیہ کی قدرتی گیس کی پہلی ترسیل کا آغاز کیا اور گھرانوں کو مفت توانائی سپلائی کرنے کا وعدہ کیا۔
ایردوان نے ایک تقریب میں ترکیہ کے پہلے نیوکلیئر پاور اسٹیشن کا افتتاح بھی کیا جس کی تقریب میں روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے شرکت کی تھی۔
ادھر ایردوان کے مدمقابل کمال کلیچ دار اولو ، جنہیں ترکیہ کی حزبِ اختلاف کی چھ جماعتوں کے اتحاد نے صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے، ایک مخلص اور بعض اوقات غیرت مند سابق سرکاری ملازم کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
ترکیہ میں رواں ماہ ہونے والے انتخابات کو ملک کی جدید تاریخ میں شاید سب سے زیادہ نتیجہ خیز سمجھا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں میں عام طور پر 74 سالہ کمال کلیچ دار اولو کو برتری حاصل ہے اور ممکنہ طور پر دوسرے راؤنڈ کے ووٹ میں ان کا جیتنا ظاہر بھی کیا جا رہا ہے۔
اپنی جامع مہم کے دوران کمال کلیچ دار اولونے مہنگائی کے بحران پر قابو پانے کا عہد کیا۔ ترکیہ میں حالیہ برسوں میں مہنگائی کی لہر صدر ایردوان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔
SEE ALSO: صدر ایردوان کے لیے 2023 کا الیکشن 'بڑا چیلنج' کیوں؟کمال کلیچ دار اولو نے روایتی اقتصادی پالیسیوں کے نفاذ، پارلیمانی نظامِ حکومت کی واپسی، عدلیہ کی آزادی اور مغرب کے ساتھ تعلقات ہموار کرنے کا وعدہ اپنی انتخابی مہم میں کرتے رہے ہیں۔
موجودہ صدر ایردوان پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے عدلیہ کا استعمال کیا ہے۔
گزشتہ سال ترکیہ میں مہنگائی کی شرح 85 فی صد تک جاپہنچی تھی اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسی طرح کے حالات سے ملک کی معیشت اور کرنسی کے بحران جنم لے سکتے ہیں۔
حزب اختلاف نے اس بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے کا وعدہ کیا ہے۔
ایک حالیہ ریلی سے خطاب کے دوران کمال کلیچ دار اولو نے مالی چیلنجز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ میں لوگ زندگی گزرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اب تبدیلی کا وقت آ گیا ہے۔
SEE ALSO: ترکیہ انتخابات: ایردوان کے مقابلے میں حزبِ اختلاف کے متفقہ امیدوار کا اعلانتاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی کے صدر کمال کلیچ دار اولوبار بار انتخابی شکستوں کے بعد اردوان کی طرف سے تنقید کی زد میں ہیں۔ اپنے مخالف یعنی ایردوان کے مقابلے میں لوگوں کو جمع کرنے کی ان جیسی اہلیت نہیں رکھتے۔ ان کو اس تنقید کا بھی سامنا ہے کہ وہ ایردوان کے بعد کے ترکیہ کے لیے کوئی واضح تصویر پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اس قسم کی تنقید سے قطع نظر کمال کلیچ دار اولو حزب اختلاف کی 2019 کے بلدیاتی انتخابات میں ایردوان کی حکمران جماعت اے کے پارٹی کے خلاف حاصل کی گئی کامیابی کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔