ترکیہ میں دو ماہ بعد ہونے والے صدارتی الیکشن میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے صدر رجب طیب ایردوان کے مقابلے کے لیے متفقہ امیدوار اعلان کر دیا ہے۔
ترکیہ میں 14 مئی کو صدارتی انتخابات ہونا ہیں۔ حزبِ اختلاف کی چھ جماعتوں کے اتحاد نے صدر ایردوان کے مقابلےکے لیے معاشی ماہر اور ملک کی دوسری بڑی جماعت کے سربراہ کمال قلیچ دار اوغلو کو ممکنہ امیدوار نامزد کیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق کمال قلیچ دار اوغلو کی عمر لگ بھگ 74 برس ہے اور وہ ترکیہ کی دوسری بڑی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کے سامنے آنے کا مقصد صدر ایردوان کے دو دہائیوں پر محیط اقتدار کو ختم کرنا ہے۔
ری-پبلک پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے چیئرمین کمال قلیچ دار اوغلو نے پیر کو انقرہ میں اپنے حامیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں کہا کہ "ہمارا مقصد امن ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ملک کو اس دور کی طرف لے جائیں جہاں خوش حالی، امن اور خوشیاں ہوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ کامیاب ہونے کے بعد ترکیہ میں حکومتی فیصلوں میں اتفاقِ رائے اور مشاورت کو ترجیح دیں گے۔
رجب طیب ایردوان کے مقابلے میں موجود چھ جماعتی اتحادنے اعلان کیا ہے کہ وہ کامیابی کی صورت میں صدر ایردوان کی کئی پالیسیوں کو تبدیل کر دیں گے جن میں اقتصادی معاملات، انسانی حقوق اور خارجہ امور سے متعلق اقدامات شامل ہیں۔
کئی مبصرین صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کو ترکیہ کی 100 سالہ تاریخ کے انتہائی نتیجہ خیز الیکشن قرار دے رہے ہیں اور سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا ایک معاشی ماہر کمال قلیچ دار اوغلو دو دہائیوں کے دوران انتخابی سیاست میں کامیابیاں سمیٹنے والے ایردوان کا مقابلہ کر سکیں گے؟
کمال قلیچ دار اوغلو سابق سرکاری ملازم ہیں۔ انہیں اپنی انتخابی مہم کے دوران ایردوان کے خلاف بات کرنے کے لیے معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی مہنگائی جیسے مسائل دستیاب ہیں۔
ترکیہ میں گزشتہ ماہ آنے والے زلزلے سے 46 ہزار اموات ہوئی ہیں جس پر حکومت کے بروقت اقدامات سامنے نہ آنے پر ایردوان حکومت پر پہلے ہی تنقید ہو رہی ہے اور اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس تنقید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
حزبِ اختلاف کے اتحاد کی جانب سے کمال قلیچ دار اوغلو کی نامزدگی سے قبل اختلافات بھی سامنے آئے تھے تاہم اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کو نائب صدور کے عہدے دینے پر اتفاق کے بعدکمال قلیچ متفقہ صدارتی امیدوار بننے میں کامیاب ہو سکے۔
پیر کو اپنے خطاب میں کمال قلیچ نے اعلان کیا تھاکہ کامیابی کی صورت میں اتحاد میں شامل دیگر پانچ جماعتوں کے رہنما نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں گے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ کامیابی کی صورت میں ترکی میں صدارتی نظام کا خاتمہ کریں گی اور ملک کو دوبارہ پارلیمانی نظام کی طرف لے جائیں گی جب کہ ملک کے مرکز ی بینک کی آزاد حیثیت کو بھی ایک بار پھر بحال کیا جائے گا۔
ترکیہ میں زلزلےسے قبل یہ اندازے لگائے جا رہے تھے کہ ایردوان کی مقبولیت کم ہورہی ہے۔ البتہ حالیہ اندازوں میں یہ سامنے آیا ہے کہ ایردوان اور ان کی جماعت اے کے پارٹی (اے کے پی) ایک بار پھر اپنی حمایت میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
ایردوان کی جماعت اے کے پارٹی پہلی بار 2002 میں کامیاب ہو کر اقتدار تک پہنچی تھی اور اس کے بعد سے مسلسل انتخابی کامیابیوں سے یہ اقتدار میں موجود ہے۔
رجب طیب ایردوان کی قیادت میں ترکیہ میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایک تو ترکیہ کو ایک قدامت پسند معاشرے میں تبدیل کیا گیا ہے جب کہ اس کو ایک بھر پور فوجی طاقت میں بدلنے کی کوشش کی گئی ہے جو خطے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔
واضح رہے کہ ایردوان کے خلاف حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں زیادہ تعاون اس وقت بڑھا جب 2019 میں ملک میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں اسے اے کے پارٹی کے مقابلے میں کئی بڑے شہروں میں کامیابی ملی۔ حزبِ اختلاف نے استنبول اور انقرہ جیسے اہم ترین شہروں میں اپنے میئر کے امیدوار کامیاب کرائے۔