ترکی میں پالیمانی انتخابات کے لیے ووٹنگ اتوار کو ہو رہی ہے۔
وزیراعظم رجب طیب اردگان اور اُن کی اسلامی رجحانات رکھنے والی جماعت کے مسلسل تیسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے امکانات واضح ہیں۔
ترکی کی معیشت میں بہتری اور عالمی سطح پر اُس کے اثرورسوخ میں اضافے کے باعث وزیراعظم طیب اردگان کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) انتخابات میں دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بارے میں پُرامید ہے جس کے بعد وہ یک طرفہ طور پر آئین میں تبدیلی کرنے کی اہل ہو جائے گی۔
مسٹر اردگان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا سیاسی ہدف صدارتی طرز پر حکومت کا قیام ہے جس میں تمام اختیارات اُن کے پاس ہوں۔ بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ مسٹر اردگان اس وقت بھی اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور وہ ترکی کو ایک سیکیولر ریاست کے بجائے قدامت پسند اسلامی ریاست بنانا چاہتے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت ریپلیکن پیپلز پارٹی کے امیدوار Oguz Kaan Salici کا کہنا ہے کہ حکومت میں تنقید سننے کی برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
حکمران جماعت اے کے پی کے امیدوار ولکن بوزکر کہتے ہیں کہ نئے آئین میں اقلیتوں کو زیادہ حقوق دیے جائیں گے جیسا کہ کردوں کو جو مشرقی ترکی میں خود مختاری کے مطالبات کر رہے ہیں۔
کردوں نے رواں سال اس وقت انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جب ترکی کے مرکزی الیکشن بورڈ نے سات کرد امیدواروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا امکان ظاہر کیا، لیکن بعد میں یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا تھا۔
کالعدم کردستان ورکز پارٹی (پی کے کے) نسلی بنیادوں پر ایک آزاد ریاست کے قیام کی خاطر 1984ء سے ترکی کی فوج سے لڑ رہی ہے۔ اس لڑائی میں اب تک تقریباً 40,000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ترکی، امریکہ اور یورپی یونین پی کے کے کو ایک دہشت گرد گروہ تصور کرتے ہیں۔