افغانستان میں ایک جانب طالبان پیش قدمی کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو افغانستان سے ترکی پہنچ رہے ہیں۔ ترکی پہلے ہی لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے اور حکومت کی پناہ گزینوں سے متعلق حکمتِ عملی میں چھان بین کا عمل سخت ہو رہا ہے۔
ترکی میں سوشل میڈیا پر وڈیوز وائرل ہو رہی ہیں جن میں مبینہ طور پر افغان پناہ گزین بسوں میں سامان رکھنے کی جگہ پر بیٹھ کر سفر کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
وڈیوز کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو بسوں اور ٹرکوں کے ذریعے ایران کے راستے ترکی اسمگل کیا جا رہا ہے۔
حکام اور مبصرین کا خیال ہے کہ روزانہ 500 سے 2000 افغان پناہ گزین ترکی میں داخل ہو رہے ہیں۔
انقرہ میں قائم 'فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ' سے وابستہ حسین باگ کا کہنا ہے کہ ترکی کی حکومت تشویش میں مبتلا ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان اقتدار میں آ جاتے ہیں تو پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران اگر ترکی کی طرف جانے والی شاہراہ کھول دیتا ہے اور تمام تارکینِ وطن جو افغانستان سے ایران آتے ہیں، ترکی پہنچ جاتے ہیں۔ جب کہ ایران ان کو قبول نہیں کرتا اور ان کو ترکی جانے دیتا ہے۔ تو یہ ایک اور بحران ہوگا۔ مہاجرین کا مسئلہ آنے والے دنوں میں اہم اندرونی مسئلہ بن جائے گا۔
انقرہ اب ایران کے ساتھ اس کی پورے 300 کلومیٹر پر محیط سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے سرحدی دیوار تعمیر کر رہا ہے۔
ترکی پہلے ہی لگ بھگ 35 لاکھ شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے اور کم از کم ایک لاکھ ایسے افغان پناہ گزین پہلے ہی ترکی میں موجود ہیں جو افغانستان کے مخدوش حالات کے دوران ترکی پہنچے تھے۔
ترکی پناہ گزینوں کے حوالے سے یورپی یونین کے لیے نگران کا کردار بھی ادا کر رہا ہے اور اس کے بدلے میں اربوں ڈالر امداد حاصل کر رہا ہے۔ معاہدہ کے تحت ترکی کو یورپی یونین میں شامل پڑوسی ممالک کے اندر سفارتی فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ البتہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے حکومت کو پناہ گزینوں کے حوالے سے یورپی یونین سے مزید معاہدے کرنے کے خلاف متنبہ کیا ہے۔
حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے مطابق مغرب نے دیکھ لیا ہے کہ وہ ترکی کو پناہ گزینوں کی کھلی جیل میں تبدیل کر سکتا ہے۔ پناہ گزینوں کی جوق در جوق آمد ترکی کی بقا کا مسئلہ ہے۔
آسٹریا کی چانسلر سبسٹیئن کرز نے بھی رواں ماہ کہا ہے کہ گھر بار چھوڑ کر آنے والے افغانستان کے پناہ گزینوں کے لیے ترکی خطے کے دیگر ممالک آسٹریا، جرمنی اور سوئیڈن کی نسبت بہتر جگہ ہے۔
ترکی کی حکومت کا افغان پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے اور میزبانی سے متعلق اب تک مؤقف سامنے نہیں آیا۔ البتہ حالیہ دنوں میں کچھ وزرا نے پناہ گزینوں کی میزبانی کو یہ کہتے ہوئے سراہا ہے کہ پناہ گزین ترکی کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بعض لوگ اس نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کرتے۔ 'گلوبل سورس پارٹنرز' سے وابستہ عتیلا یسلاڈا کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنما نئے پناہ گزینوں کو روکنے سے متعلق تجویز سے اتفاق کرتے ہیں۔ دوسری جانب مقامی لوگ بھی خدشات کا شکار ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان کے مطابق رائے عامہ کے تمام سابقہ جائزے ثابت کرتے ہیں کہ ترک شہریوں کی اکثریت، اپنی پارٹی وابستگیوں سے ہٹ کر چاہتی ہے کہ پناہ گزین واپس جائیں۔ کئی شہری یہ مؤقف بھی رکھتے ہیں کہ مزدوروں کی جگہ افغان اور شامی شہریوں نے لے لی ہے۔
ترکی میں مشکلات سے دوچار معیشت کو کرونا کی عالمی وبا اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب دھچکہ لگا ہے اور ملک کے اندر اس بارے میں تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں آمد ان پریشانیوں میں اضافہ کرے گی۔