تاہم، ترکی میں’یوٹیوب‘ کی وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ تک عام رسائی پر بندش اب بھی جاری ہے
واشنگٹن —
ترکی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ’ٹوئٹر‘ کے سماجی میڈیا نیٹ ورک پر لگائی گئی پابندی واپس لے لی گئی ہے، جس سے ایک ہی روز قبل ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس بندش کو آزادہ اظہار کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
ملک کے ادارے برائے رسل و رسائل نے جمعرات کو کہا کہ وہ ٹوئٹر تک رسائی کو بحال کرنے کا اقدام کرنے والا ہے۔
ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے بندش کے یہ احکامات دو ہفتے قبل صادر کیے تھے، جس سے قبل ٹوئٹر کو وہ آڈیو فائلیں بھیجنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، جن میں وزیر اعظم اور اُن کے بیٹے کو بدعنوانی کے معاملات میں ملوث بتایا گیا تھا۔
یہ بندش ایسے وقت لگائی گئی تھی جب اہمیت کے حامل مقامی انتخابات جاری تھے۔
تاہم، ترکی میں’یوٹیوب‘ کی وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ تک عام رسائی پر بندش اب بھی جاری ہے۔
ترکی کی حکومت نے یہ پابندی اس وقت لگائی تھی جب سائٹ نے ترکی کے اعلیٰ عہدے داروں کی ایک آڈیو ریکارڈنگ جاری کی جس میں شام کی خانہ جنگی میں ممکنہ فوجی مداخلت کے منصوبے کے بارے میں مبینہ گفتگو کی جارہی تھی۔
ٹوئٹر اور یوٹیوب پر لگائی جانے والی بندش پر بین الاقوامی طور پر مذمت کا اظہار کیا گیا تھا۔
مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں مسٹر اردگان کو کہنا پڑا تھا کہ اس کا افشا ہونا ایک ’شرارت‘ ہے۔
اُنھوں نے اِسے اُن پر اور اُن کی ’انصاف اور ترقی پارٹی‘ پر کیے جانے والے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی ایک چال قرار دیا تھا، جب کے مقامی انتخابات سر پر تھے، جو اتوار، مارچ 30 کو منعقد ہوئے۔
اِن انتخابات میں مسٹر اردگان نے اپنی پارٹی کی فتح کا دعویٰ کیا ہے، جسے اُن کی حکمرانی پر کیا جانے والا ایک ریفرینڈم قرار دیا جا رہا ہے۔
ملک کے ادارے برائے رسل و رسائل نے جمعرات کو کہا کہ وہ ٹوئٹر تک رسائی کو بحال کرنے کا اقدام کرنے والا ہے۔
ترک وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے بندش کے یہ احکامات دو ہفتے قبل صادر کیے تھے، جس سے قبل ٹوئٹر کو وہ آڈیو فائلیں بھیجنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا، جن میں وزیر اعظم اور اُن کے بیٹے کو بدعنوانی کے معاملات میں ملوث بتایا گیا تھا۔
یہ بندش ایسے وقت لگائی گئی تھی جب اہمیت کے حامل مقامی انتخابات جاری تھے۔
تاہم، ترکی میں’یوٹیوب‘ کی وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ تک عام رسائی پر بندش اب بھی جاری ہے۔
ترکی کی حکومت نے یہ پابندی اس وقت لگائی تھی جب سائٹ نے ترکی کے اعلیٰ عہدے داروں کی ایک آڈیو ریکارڈنگ جاری کی جس میں شام کی خانہ جنگی میں ممکنہ فوجی مداخلت کے منصوبے کے بارے میں مبینہ گفتگو کی جارہی تھی۔
ٹوئٹر اور یوٹیوب پر لگائی جانے والی بندش پر بین الاقوامی طور پر مذمت کا اظہار کیا گیا تھا۔
مبینہ آڈیو ریکارڈنگ کے بارے میں مسٹر اردگان کو کہنا پڑا تھا کہ اس کا افشا ہونا ایک ’شرارت‘ ہے۔
اُنھوں نے اِسے اُن پر اور اُن کی ’انصاف اور ترقی پارٹی‘ پر کیے جانے والے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کی ایک چال قرار دیا تھا، جب کے مقامی انتخابات سر پر تھے، جو اتوار، مارچ 30 کو منعقد ہوئے۔
اِن انتخابات میں مسٹر اردگان نے اپنی پارٹی کی فتح کا دعویٰ کیا ہے، جسے اُن کی حکمرانی پر کیا جانے والا ایک ریفرینڈم قرار دیا جا رہا ہے۔