|
ویب ڈیسک — ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے پر اپنی آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آئیے ہم اپنے تعلقات کو اسی دور میں واپس لے جائیں جیسے وہ ماضی میں تھے۔‘‘
انقرہ اور دمشق کے درمیان سفارتی تعلقات 12 سال قبل اس وقت منقطع ہوئے تھے جب شام میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی تھی۔
ترکیہ نے اس وقت شمال مغرب کے ان مسلح گروہوں کی حمایت شروع کر دی تھی جن کا مقصد شام کے صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔
اس سے قبل ایردوان اور اسد کے درمیان اتنے قریبی تعلقات قائم تھے کہ 2008 میں دونوں صدور نے اپنے خاندانوں کے ساتھ جنوبی ترکیہ میں ایک ساتھ تعطیلات گزاری تھیں۔
گزشتہ ہفتے دونوں نے کشیدگی کو ختم کرنے اور سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کا عندیہ دیا تھا۔
اتوار کو صدر ایردوان جرمنی کے شہر برلن میں تھے جہاں انہوں نے یورپی چیمپئن شپ فٹ بال کے ٹورنامنٹ کے کواٹر فائنل میں ترکیہ اور ہالنیڈ کے درمیان میچ دیکھا۔
انہوں نے برلن سے پرواز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ اور شام کے درمیان دشمنی نہیں تھی۔ ان کے بقول ’’ہم اسد کے ساتھ ایک خاندان کے طور پر ملتے تھے۔‘‘
ترکیہ کے سرکاری خبررساں ادارے اناطولو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صدر ایردوان کا مزید کہنا تھا کہ جب ہم ہر جگہ ثالثی کی بات کرتے ہیں تو اس کے ساتھ کیوں نہیں جو ہماری سرحد کے ساتھ ہے اس کے ساتھ بھی بات کی جائے۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کی باتیں ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب ترکیہ کو شدید معاشی بدحالی اور شام کے لاکھوں پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
ایک ہفتہ قبل ترکیہ کے وسطی شہر قیصری میں اس خبر کے بعد شام مخالف فسادات پھوٹ پڑے تھے کہ ایک شامی پناہ گزین نے سات سالہ بچی کو مبینہ جنسی طور پر ہراساں کیا تھا۔
مظاہرین نے گاڑیوں کو نقصان پہنچایا اور دکانوں کو نذر آتش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ شامی پناہ گزینوں کو ملک سے نکالا جائے۔
گزشتہ سال ترکیہ اور شام کے وزرائے خارجہ نے روس اور ایران کے ہم منصبوں کے ساتھ ماسکو میں ملاقات کی تھی جو شام کی جنگ کے آغاز کے بعد سے انقرہ اور دمشق کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کا رابطہ تھا۔
SEE ALSO: امریکی فورسز کی کارروائی میں داعش کا کمانڈر ہلاکان مذاکرات اور اس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے دفاع کی درمیان ہونے والی ملاقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا۔
ایردوان اور اسد کے درمیان برف پگھلنے کے آثار اور شام کی حکومت کے زیرِ قبضہ علاقوں اور صوبہ حلب میں اپوزیشن گروپوں کے کنٹرول کے علاقوں کے درمیان کراسنگ کھولنے کے منصوبے، ترکیہ کی حمایت یافتہ حزبِ اختلاف کے کنٹرول کے قصبوں میں کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے تھے۔
ادلب میں قائم ’ھیتہ تحریر الشام‘ کی ’نجات کی حکومت‘ نے، جو سابقہ القاعدہ سے منسلک ایک باغی گروپ ہے اور جس کا شام کے شمال مغرب کے کچھ حصوں پر کنٹرول ہے، یکم جولائی کو اپنے ایک بیان میں ترکیہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شامی پناہ گزینوں کی حفاظت سے متعلق اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں پوری کرے۔
اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔