خشوگی کا قتل سیاسی تھا، منصوبہ بندی کے تحت مارا گیا: ایردوان

ترکی کے صدر طیب اردوان۔ فائل فوٹو

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی کا قتل سیاسی تھا ، انہیں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔

ترک صدر نے منگل کو پارلیمنٹ سے جمال خشوگی کے قتل سے متعلق تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس قتل کے منصوبے کے شواہد موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قتل کے سلسلے میں ہونے والی تحقیقات کا ہر پہلو سے جائزہ لیں گے ۔

ترک صدر طیب اردوان نے بتایا کہ جمال خشوگی کے قتل کی منصوبہ بندی 29 ستمبر کو کی گئی اور دو سعودی ٹیمیں قتل میں ملوث تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ قتل کے 17 دن بعد سعودی عرب نے قتل کا اعتراف کیا۔

ترکی کے صدر نے کہا کہ قتل ہماری سرزمین پر ہوا اس لیے تحقیقات کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ امریکی صدر سے اس معاملے پر تفصیل سے بات ہوئی ہے جبکہ سعودی شاہ سلمان سے گفتگو کے بعد مشترکا تحقیقاتی ٹیم بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ترک پولیس اورہماری خفیہ ایجنسی اس معاملے کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہی ہے اور یہ قتل عالمی معاملہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ سفارتی استثنیٰ کے باوجود قتل کی تحقیقات ہماری ذمہ داری ہے۔ قتل کی پلاننگ اور اس پرعمل کرنے والوں کے خلاف کارروائی پر ہی دنیا مطمئن ہوگی۔ تحقیقات کیلئے آزاد کمیشن بننا چاہئے۔

ترک راہنما نے کسی پر غلط طریقے سے الزام عائد کرنے سے گریز اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایک ذمہ داری پوری کرنے کے لیے اپنی پولیس اور انٹیلی جینس کی جانب سے ایک تفصیلی چھان بین کی ضرورت پر زور دیا۔ سعودی عر ب نے گزشتہ ہفتے تسلیم کیا تھا کہ خشوگی کی ہلاکت در حقیقت قونصل خانے کے اندر ہوئی تھی اور ابتدائی طور پر یہ کہا تھا ایسا ایک ہاتھا پائی کے بعد ہوا تھا۔ پھر بعد میں اپنا بیان تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت گلا گھٹنےسے ہلاک ہوئے جب وہ عمارت سے باہر نکل کر مدد کے لیے پکارنے کی کو شش کر رہے تھے اور انہیں روکا گیا۔

منگل کے روز اردوان نے کہا کہ سعودی عرب نے یہ اعتراف کر کے ایک اہم قدم اٹھایا ہے کہ ہلاکت ہوئی تھی لیکن یہ کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ سعودی راہنما تمام ملوث افراد کو ذمہ دار ٹھہرائیں، خواہ ان کا کوئی بھی مرتبہ ہو۔ مسٹر اردوان نے کہا کہ صرف انٹیلی جینس کے کچھ کارندوں ہی کو مورد الزا م نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور انہوں نے تجویز دی کہ کوئی بھی قانونی چارہ جوئی استنبول میں ہی ہو، کیوں کہ یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں خشوگی کی ہلاکت ہوئی۔

مسٹر اردوان نے اپنی تقریر کو اس واقعے کے بارے میں متعدد سوالات پر ختم کیا جن میں یہ سوال شامل تھے کہ خشوگی کی نعش کہاں ہے، سعودی ٹیم کو استنبول جانے کی ہدایت کس نے کی تھی اور جو کچھ ہوا اس کے بارے میں سعودی عر ب نے اپنے جوابات کیوں تبدیل کیے۔

متعدد وضاحتوں پر اس بارے میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے، جو ملک کے فی الواقع حکمران ہیں، خشوگی کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا۔

پیر کے روز نگرانی سے متعلق جاری کی گئی نئی ویڈیو میں بظاہر خشوگی کی ہلاکت کو چھپانے کی ایک کوشش میں یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ خشوگی قونصل خانے سے زندہ رخصت ہوا تھا، یہ دکھایا گیا کہ خشوگی کے کپڑے پہنے ایک سعودی ایجنٹ دو اکتوبر کو قونصل خانے سے باہر گیا تھا۔

یہ ویڈیو قانون نافذ کرنے والے ترک ادارے نے اپنے قبضے میں کی اور اسے پیر کے روز سی این این پر دکھایا گیا۔

اردوان کی تقریر سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ انہوں نے جو کچھ سنا ہے وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں لیکن انہیں توقع ہے کہ اگلے چند روز میں بہت کچھ اور سامنے آئے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اگر سعودی عرب کو خشوگی کی موت کا ذمہ دار پایا گیا تو اس کے نتائج بر آمد ہوں گے لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کا ایسی کسی کارروائی کا ارادہ نہیں ہے جو اسلحے کی فروخت کے معاہدوں پر اثر انداز ہو۔ انہوں نے پیر کے روز کہا کہ وہ اپنے ملک میں کی جانے والی تمام سرمایہ کاری کو کھونا نہیں چاہتے۔

امریکی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہاسپل ترکی میں خشوگی کی ہلاکت کی تحقیقات کرنے والے عہدے داروں سے ملنے کے لیے پیر کے روز ترکی روانہ ہو گئی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ان کے دورے کے بارے میں اعلانیہ کچھ نہیں کہا ہے۔

یاد رہے کہ سعودی صحافی جمال خشوگی استنبول میں سعودی فونصل خانے کے بعد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔

ادھر بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے گزشتہ روز اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ترکی کے تحقیقاتی اداروں نے جمال خشوگی کے قتل کے حوالے سے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ صدر طیب اردگان کو ارسال کردی گئی تھی جس سے صدر نے منگل کو اپنی کابینہ اور جماعت کے اراکین کو پارلیمنٹ اجلاس میں آگاہ کیا۔

خشوگی 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے سے لاپتہ ہوگئے تھے۔ سعودی حکام نے ابتدائی دعوے میں کہا تھا کہ خشوگی کچھ دیر بعد ہی واپس چلے گئے تھے لیکن ترکی کے حکام نے اس موقف کو رد کردیا تھا۔

سعودی عرب نے عالمی دباؤ کے بعد اپنے دوسرے دعوے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ خشوگی ہاتھا پائی کے دوران ہلاک ہوئے تھے تاہم لاش کے حوالے سے سعودی حکام نے لاعلمی ظاہر کی تھی جبکہ دو روز قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے امریکی ٹی وی فاکس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ خشوگی کا قتل سنگین غلطی تھی۔