ترک حکام نے جمعے کے روز ایک نامور صحافی پر ہونے والے حملے کے سلسلے میں دو مزید افراد کو حراست میں لے لیا ہے، جس سے قبل اُنھیں پانچ سال سے زائد قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
ترک میڈیا کے مطابق، مسلح شخص کے دو احباب جنھوں نے حزب مخالف کے اخبار 'جمہوریت' کے ایڈیٹر اِن چیف، جان دندار پر گولی چلائی اُنھیں ہفتے کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا۔
دندار بخیریت ہیں۔ استنبول میں بند کمرے میں ہونے والی سماعت کے دوران، اُنھیں پانچ برس 10 ماہ کی قید کی سزا سنائی گئی، جب کہ اخبار کے انقرہ کے بیورو چیف اردم گل کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی۔
دونوں کو ملک کے خفیہ راز اگلنے کا مجرم قرار دیا گیا۔ تاہم، اُن کے خلاف دیگر الزامات ثابت نہیں ہوئے، جن میں حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام شامل ہے۔
اُن پر چلنے والے مقدمے کا تعلق سرکاری اسلحے کی شام کو مبینہ اسمگلنگ کے معاملے سے تھا۔
مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے سے کچھ ہی گھنٹے قبل، کمرہ عدالت کے باہر ایک مسلح شخص نے 'غدار' کا نعرہ لگاتے ہوئے دندار پر دو بار گولی چلائی۔ ایک نجی ٹیلی ویژن اسٹیشن سے وابستہ ایک صحافی، یگیس زنگل ٹانگ پر گولی لگنے کے باعث زخمی ہوئے۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد، دندار نے صدر رجب طیب اردوان اور حکومت کے زیر سرپرستی چلنے والے ذرائع ابلاغ پر نفرت آمیز ماحول پیدا کرنے کا الزام لگایا، جس کے سبب، بقول اُن کے، اُن پر حملہ کیا گیا۔ دندار نے کہا کہ ''صحافی کے طور پر ہم اپنا کام جاری رکھیں گے، حالانکہ ہمیں خاموش کرنے کے تمام حربے استعمال کیے جارہے ہیں''۔'
ترکی میں اس مقدمے کو آزادی صحافت کے لیے ایک تجربہ قرار دیا جا رہا تھا۔ اس پر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مزمت کی جارہی ہے، جو بارہا ترکی کے حکام کی جانب سے اختلاف رائے کے عدم برداشت پر آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
'کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنسلسٹس (سی پی جے)' نے جمعے کے روز اِن دو صحافیوں کو سزا سنائے جانے پر ترکی کی عدالت کی مزمت کی ہے۔
صحافیوں کی تنظیم نے کہا ہے کہ صحافی آزاد ہیں، اُن کو اپیل کا حق حاصل ہے، اور عدالت نے اُن پر عائد سفر کی پابندی اٹھا لی ہے۔ اُنھیں ڈر لاحق ہے کہ ایک دہشت گرد تنظیم سے تعلق کے الزام پر اُن کے خلاف الگ سے مقدمے کی کارروائی کی جاسکتی ہے، حالانکہ وہ اس تنظیم کے رُکن نہیں ہیں۔
امریکہ نے کہا ہے کہ دو صحافیوں کو مجرم قرار دیے جانے کے معاملے پر اُسے تشویش ہے۔ محکمہ خارجہ کے ترجمان، جان کِربی نے جمعے کو ایک بار پھر ترک حکام سے مطالبہ کیا کہ ''غیر جانبدار اور آزاد میڈیا کی حمایت کی جائے، جو کسی جمہوری اور آزاد معاشرے کا لازمی جُزو ہوا کرتی ہے''۔
اس سے قبل، رواں سال، نائب صدر جو بائیڈن نے ملک کا دورہ کیا، جب اُنھوں نے آزادی اظہار کے خلاف سخت روی اختیار کرنے پر ترک رہنمائوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحافیوں کو قید کرکے اور اُن کی آواز کو دبا کر جن سے وہ اختلاف رائے رکھتے ہیں، حکومتِ ترکی کوئی اچھی 'مثال' قائم نہیں کر رہی ہے۔
سنہ 2014 جب صدر نے عہدہ سنبھالا، اردوان کی توقیر کا لحاظ نہ برتنے کے الزام پر 2000 سے زائد افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی ہے۔
عالمی آزادی صحافت کی 2016ء کی تازہ جاری کردہ فہرست میں 'رپورٹرز ودائوٹ بارڈرز' نے 180 ملکوں میں سے ترکی کو 151واں درجہ دیا ہے۔