مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم ٹوئٹر نے کہا ہے کہ صارفین کو 'ٹوئٹ ڈیک' تک رسائی کے لیے جلدہی خود کو ویریفائڈ کروانا ہوگا۔
منگل کو ٹوئٹر نے ایک ٹوئٹ میں نئے فیچرز کے ساتھ 'ٹوئٹ ڈیک' کے نئے ورژن کا اعلان کیا ہے لیکن صارفین کو ٹوئٹ ڈیک کے استعمال کے لیے 30 دن میں ویریفائڈ ہونے کا انتباہ بھی جاری کیا ہے۔
ٹوئٹ ڈیک کا زیادہ تر استعمال کاروباری ادارے اور نیوز آرگنائزیشنز کرتی ہیں تاکہ کانٹینٹ کو مانیٹر کیا جا سکے۔ ٹوئٹ ڈیک کا استعمال پہلے مفت تھا لیکن اب اس کے لیے بھی رقم وصول کی جائے گی۔
We have just launched a new, improved version of TweetDeck. All users can continue to access their saved searches & workflows via https://t.co/2WwL3hNVR2 by selecting “Try the new TweetDeck” in the bottom left menu.Some notes on getting started and the future of the product…
— Twitter Support (@TwitterSupport) July 3, 2023
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ٹوئٹ ڈیک کے لیے چارچز ٹوئٹر کے لیے ریونیو بڑھانے کا باعث بن سکتے ہیں کیوں کہ جب سے ٹوئٹر ایلون مسلک کی ملکیت میں آیا ہے اسے اشتہارات کی آمدنی برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔
ٹوئٹ ڈیک کے لیے ویریفائڈ ہونےکی شرط ایک ایسے موقع پر لگائی گئی ہے جب کچھ ہی دن پہلے ایلون مسک نے کہا تھا کہ ٹوئٹر کے ویریفائڈ اور ان ویریفائڈ یعنی تصدیق شدہ اور غیرتصدیق شدہ صارفین روزانہ محدود تعداد میں پوسٹس پڑھ سکیں گے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ویریفائڈ اکاؤنٹس کو یومیہ چھ ہزار پوسٹس تک محدود کردیا گیا ہے جب کہ ان ویریفائڈ اکاؤنٹس روزانہ صرف 600 پوسٹس پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ نئے ان ویریفائڈ اکاؤنٹس کے لیے یہ روزانہ حد 300 پوسٹس تک ہے۔
To address extreme levels of data scraping & system manipulation, we’ve applied the following temporary limits:- Verified accounts are limited to reading 6000 posts/day- Unverified accounts to 600 posts/day- New unverified accounts to 300/day
— Elon Musk (@elonmusk) July 1, 2023
ٹوئٹر اکاؤنٹ کو ویریفائڈ کروانے کے لیے صارفین کو آٹھ ڈالر ماہانہ جب کہ آرگنائزیشنز کو ایک ہزار ڈالر ماہانہ ادا کرنے ہوتے ہیں۔
البتہ اگر آپ ڈیسک ٹاپ ورژن سے ٹوئٹر ویری فکیشن کرواتے ہیں تو آپ کو ماہانہ 23 ہزار 700 پاکستانی روپے ادا کرنا ہوں گے جب کہ موبائل ایپ سے ویری فکیشن کے چارجز 32 ہزار 500 روپے ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔