بارکھان؛ کنویں سے ملنے والی تین میں سے دو لاشوں کی تدفین

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر بارکھان میں کنویں سے ملنے والی تین میں سے دو لاشوں کی تدفین کر دی گئی ہے۔ لڑکی کی لاش کی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی لاش سرد خانے منتقل کر دی گئی ہے۔

چند روز قبل مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے محمد خان مری کے دو بیٹوں اور ایک نامعلوم لڑکی کی لاشیں ملی تھیں جس پر وزیرِ اعلٰی ہاؤس کے باہر کئی روز سے احتجاج جاری تھا۔

محمد خان مری کے دو بیٹوں کی تدفین جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب مشرقی بائی پاس قبرستان میں کر دی گئی۔

آل پاکستان مری اتحاد کے مطابق لڑکی کی شناخت نہیں ہوسکی اور تاحال کوئی وارث بھی سامنے آنے نہیں آیا اس لیے خاتون کی لاش کو ایدھی سرد خانے میں رکھا گیا ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے مری قبیلے کی بازیاب کرائی جانے والی خاتون گراں ناز اور ان کے بچوں کی کوئٹہ میں والد سے ملاقات کرا دی تھی جس کے بعد مری قبیلے کے ایک دھڑے نے دھرنا ختم جب کہ دوسرے گروپ نے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دھرنا جاری رکھنے والے گروپ کا مؤقف ہے کہ جب تک بازیاب کرائی جانے والی خاتون کو دھرنے کے مقام تک نہیں پہنچا دیا جاتا اس وقت تک دھرنا ختم نہیں ہو گا۔

یاد رہے کہ 21 فروری کو وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے بارکھان کے قریب کنویں سے تین لاش ملنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی تاہم لواحقین نےاسے مسترد کر دیا تھا۔


گزشتہ روز خان محمد نے اپنے ایک بیان میں آل پاکستان مری اتحاد سمیت دیگر تمام افراد کا شکریہ ادا کیا جنہوں دھرنے میں شرکت کی۔

خان محمد مری کا کہنا تھا کہ بچوں کی بازیابی کے بعد اب قانونی کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے اس لیے میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔

ادھر دوسری جانب کوئٹہ میں مجسٹریٹ 12 کی عدالت میں بچوں کا 164 کا بیان ریکارڈ کر لیا گیا ہے۔مدعی خان محمد مری کے وکیل تنویر مری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ والدہ اور بچوں نے سردار عبد الرحمان کھیتران کے خلاف اپنا بیان دیا ہے۔

تنویر مری ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ بچوں نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران کے نجی جیل میں قید کے دوران لڑکی اور لڑکوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی گئی ہے۔

دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس حراست میں موجود عبدالرحمان کھیتران اپنے اوپر لگنے والے الزامات کی تردید کر چکے ہیں۔

تنویر مری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بچوں کے خون اور ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے نمونے لے لیے گئے ہیں تاکہ اس سلسلے میں مزید کارروائی کی جائے۔

وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ سانحہ بارکھان پر اس لیے جی آئی ٹی بنائی گئی ہے کہ وہ تمام حقائق سامنے لائیں کہ اس واقعے کا ذمے دار کون ہے۔

وزیرِ داخلہ کا کہنا تھا کہ صرف سوشل میڈیا پر آنے والے مطالبات کی بنا پر قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی جب تک کوئی پولیس کو رپورٹ نہیں کرے گا معاملہ آگے نہیں بڑھے گا۔

انہوں نے کہا کہ خاتون اور بچوں کی بازیابی کے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان، محکمہ داخلہ، پولیس، لیویز اور حساس اداروں سب نے کوششیں کی ہیں۔

دوسری جانب صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات پر کہا ہے کہ میری کوئی نجی جیل نہیں ہے۔ حکومت اور تمام ادارے میرے گاؤں اور گھروں کی تلاشی لے سکتے ہیں۔