امریکی سینیٹ کی دو کمیٹیوں نے منگل کے روز ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں 6 جنوری اور اس سے پہلے کیپٹل ہل پر حملے سے متعلق سیکیورٹی اور انٹیلی جنس کی متعدد ناکامیوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 6 جنوری کا حملہ کانگریس کی عمارت پر نہیں بلکہ جمہوریت پر حملہ تھا۔ وہ اکائیاں جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ کانگریس کی عمارت اور وہاں موجود ہر شخص کی حفاظت کرتیں، اس بڑی سطح کے حملے کے لیے تیار نہیں تھیں باوجود یہ کہ انہیں کیپٹل ہل کو ممکنہ طور پر ہدف بنائے جانے اور یہاں تشدد سے متعلق اطلاعات مل چکی تھیں۔
سینیٹ کی ہوم لینڈ کمیٹی اور رولز کمیٹی نے اس واقعے کی دو جماعتی تحقیقات فروری میں شروع کی تھیں۔ کمیٹیوں نے یو ایس کیپٹل پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ ڈیفینس اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے محکموں کے موجودہ اور سابق عہدیداروں کو سماعت کے لیے طلب کیا۔ کمیٹیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے یو ایس کیپٹل پولیس کے 50 افسروں سے ملنے والی ہزاروں دستاویزات اور بیانات کا مطالعہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق،’’6 جنوری کو پیش آنے والے افسوس ناک واقعات میں سب سے اہم پہلو یہ تھا کہ انٹیلی جنس کمیونٹی ممکنہ تشدد اور اس دن کیپٹل ہل اور اراکین کانگریس کے لیے ممکنہ خطرات کے مناسب تجزیے اور پھر حاصل ہونے والی معلومات کو قانون نافذ کرنے والے اداروں تک پہنچانے میں ناکام رہی‘‘۔
کمیٹیوں کے مطابق، انٹیلی جنس کی ناکامی میں دونوں باتیں شامل ہیں، فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن یا ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کی جانب سے ملنے والی اطلاعات پر خطرات کے جائزے کا فقدان اور یو ایس کیپٹل پولیس کی انٹیلی جنس برانچوں کا خطرات سے متعلق ملنے والی اطلاعات کا دیگر آفیسرز کے ساتھ تبادلہ نہ کرنا۔
یاد رہے کہ کیپٹل ہل پر حملہ اس وقت ہوا تھا جب عمارت کے اندر اراکین کانگریس صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں فتح کی توثیق کر رہے تھے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی سیکیورٹی لائنز کو تشدد کے ذریعے توڑتے ہوئے عمارت کے اندر گھس آئے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اراکین کانگریس ان حالات میں خود بچتے بچاتے اپنے چیمبروں میں گئے اور کئی گھنٹوں بعد واپس کام پر آئے، جب قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نیشنل گارڈز نے عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
انٹیلی جنس کی ناکامی کے علاوہ، کمیٹیوں نے ان لوگوں کو بھی قصوروار قرار دیا ہے جو کیپٹل کی سیکیورٹی کے ذمہ دار تھے اور انہوں نے 6 جنوری سے پہلے نیشنل گارڈز سے مدد طلب نہیں کی تھی۔ ساتھ ساتھ اس سقم والے عمل کی نشاندہی بھی رپورٹ میں کی گئی ہے جس میں نیشنل گارڈز کو درخواست کی جاتی ہے لیکن وہ اس کے چار گھنٹے بعد کیپٹل ہل کی عمارت میں پہنچتے ہیں جب حملہ آوروں نے پہلی مرتبہ سیکیورٹی کے حصار کو توڑا تھا۔
سینیٹ کمیٹیوں نے اپنی سفارشات میں اس سارے عمل کو نقائص سے پاک کرنے، یو ایس کیپٹل پولیس کے اندر ایک انٹیلی جنس بیورو قائم کرنے، اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے سوشل میڈیا پوسٹوں میں تشدد کے خطرات کے جائزے کے لیے مدد مانگنے جیسے عوامل تحریر کیے ہیں۔
SEE ALSO: سابق صدر ٹرمپ 2023 تک فیس بک استعمال نہیں کر سکیں گےسفارشات میں اس بات کو بھی یقینی بنانے کے لیے کہا گیا ہے کہ عمارت کے اندر کیپٹل پولیس کے آفیسرز اور عملہ مناسب تعداد میں موجود ہو اور ان کے پاس وہ تمام تربیت اور اسلحہ ہونا چاہیے جس کی انہیں ضرورت ہے۔
سینیٹ کمیٹیوں نے واشنگٹن کے ایریا میں مشترکہ تربیتی مشقیں بھی تجویز کی ہیں تاکہ وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتوں کے درمیان ہنگامی حالات میں خطرات سے نمٹنے کی بہتر کوارڈی نیشن موجود ہو۔