بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی کے دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتطام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی، جس کے بعد کئی ماہ تک کشمیر میں حالات انتہائی کشیدہ اور معمولات زندگی کرفیو اور زبردست سیکیورٹی اقدامات کی وجہ سے زبردست طریقے سے متاثر ہوئے تھے ۔
بھارتی حکومت کی جانب سے ان اقدامات کے دو برس مکمل ہونے کے بعد وادہ کشمیر کے اہم ترین شہر سرینگر میں کہیں جزوی اور کہیں مکمل ہڑتال کی گئی۔
مسلح پولیس اہل کار اور بھارت کی وفاقی پولیس اور نیم فوجی دستے مختلف شاہراہوں پر تعینات رہے۔
سرینگر کے مرکزی تجارتی علاقے لال چوک اور ملحقہ بازاروں کے دکان داروں نے یہ دعویٰ کیا کہ پولیس حکام نے اُنہیں ہڑتال کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
بعض تاجروں نے الزام لگایا کہ جمعرات کی صبح پولیس اہل کار سرینگر کے لال چوک اور بڈ شاہ چوک میں پہنچے اور پھر آہنی سلاخوں، بلیڈز اور دوسرے آلات کا استعمال کرتے ہوئے کئی بند دکانوں کے تالے توڑ دیے۔
کئی تاجروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں کو بتایا کہ پولیس حکام نے انہیں فون کر کے زبردستی کھولی گئی ان کی دکانوں پر پہنچنے کے لیے کہا اور انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
تالے توڑنے کی کارروائی کی کوریج کرنے پر پولیس کی جانب سے مبینہ طور پر صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
البتہ بھارتی کشمیر کی پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
بعض صحافیوں نے موبائل فونز کے ذریعے اس کارروائی کی فوٹیج بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی۔
سید علی گیلانی سے منسوب بیان جعلی ہے؛ پولیس کا دعویٰ
اس سے پہلے پولیس حکام نے کہا تھا کہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی سے منسوب وہ بیان جعلی ہے جس میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ پانچ اگست اور 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی پر ہڑتال کریں۔
پولیس نے سید علی گیلانی کے اہلِ خانہ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس سلسلے میں اُن کے نام سے جو ٹوئٹ کی گئی ہے وہ فرضی ہے اور کسی نے پاکستان سے کی ہے۔ پولیس نے خبردار کیا تھا کہ اس ٹوئٹ کی تشہیر کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی کیونکہ اس سلسلے میں وادی کشمیر کے ضلع بڈگام کے ایک پولیس اسٹیشن میں مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
سرینگر کے حیدر پورہ علاقے میں اپنے گھر میں کئی برس سے نظر بند 91 سالہ سید علی گیلانی طویل عرصے سے علیل ہیں۔ ان کے اہلِ خانہ نے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ یا ہڑتال کے حوالے سے کی جانے والی ٹوئٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ تاہم ان کے ایک قریبی رشتے دار نے چند دن پہلے کہا تھا کہ علالت کی وجہ سے سید علی گیلانی کی معمول کی سرگرمیاں کم ہو گئی ہیں۔ ان سے باہر کے کسی شخص کو ملنے دیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ کسی سے فون پر بات کر سکتے ہیں۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں جمود کا شکار؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پانچ اگست 2019 کے بعد استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری لیڈر اور حریت پسند جماعتیں زیادہ فعال نہیں ہیں۔ ان میں صرف چند ایک کی طرف سے وقتاً فوقتاً بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن ان بیانات کو بھی مقامی میڈیا میں حکومت اور اس کے مختلف اداروں بالخصوص پولیس کی طرف سے ڈالے جانے والے مبینہ دباؤ اور جون 2020 میں متعارف کرائی گئی نئی حکومتی میڈیا پالیسی کی وجہ سے کوریج نہ ملنے کی شکایات ہیں۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی ان جماعتوں کو جن کے لیے حکومتی ادارے اور بھارتی ذرائع ابلاغ علیحدگی پسند کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ ان کے بیشتر لیڈر اور کارکن جیلوں میں بند ہیں یا انہیں نظر بند کر دیا گیا ہے۔
'امن میں رخنہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی'
پولیس حکام کہتے ہیں کہ امن و امان میں رخنہ ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کے بقول ہڑتالوں، تخریب کاری اور تشدد کی سیاست نے عام لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی اور جموں و کشمیر بالخصوص وادیٔ کشمیر کی معیشت تباہ ہو کر رہ گئی تھی۔ لہذٰا کوئی بھی ذمے دار حکومت یا انتظامیہ اس صورتِ حال کو برقرار رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی۔
کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے دو برس مکمل ہونے پر جہاں مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر میں تناؤ کے درمیان جزوی ہڑتال کی جا رہی ہے تو وہیں جموں خطے اور لداخ میں جو اب ایک الگ یونین ٹریٹری یا مرکز کا زیرِ کنٹرول علاقے ہے معمول کی زندگی میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی کے حق اور خلاف مظاہرے
جمعرات کو جموں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی یوتھ ونگ بھارتیا جنتا یوا مورچہ کے زیرِ اہتمام ایک ترنگا (بھارتی قومی پرچم ) ریلی نکالی گئی۔ مورچے کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر ارون پربھات نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے تمام لوگوں کو یکساں حقوق حاصل ہوئے ہیں۔
وادیٔ کشمیر کے اننت ناگ، ہندوارہ اور بعض دوسرے حصوں میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنوں اور حامیوں نے اسی طرح کی ریلیاں نکالیں جب کہ سرینگر میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے پارٹی صدر دفاتر کے باہر پانچ اگست 2019 کے اقدامات کے خلاف ریلی نکالی۔
ایک ٹوئٹ میں محبوبہ مفتی نے پانچ اگست 2019 کے اقدامات کا بھارتی کشمیر کے لیے سیاہ دن قرار دیا۔
پورے جموں و کشمیر میں کیے گئے غیر معمولی حفاظتی اقدامات کے تحت پولیس اور نیم فوجی دستے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر تعینات رہے۔
ادھر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پانچ اگست کے اقدامات کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بھارتی کشمیر میں ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔
ایک بیان میں اُن کا کہنا تھا کہ دو برس قبل آج ہی کے دن ایک نئے کشمیر کی بنیاد رکھی گئی جس خطے میں ترقی اور امن کا دور شروع ہوا۔
کیا زمینی صورتِ حال واقعی بدل گئی ہے؟
البتہ غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کی زمینی صورتِ حال میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں ہوئی ہے اور نہ مجموعی سیاسی حالات میں کوئی مثبت تغیر پیدا ہوا ہے۔
یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبہ سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر نور احمد بابا کا کہنا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد اگر کچھ اہم اور نیا مشاہدے میں آیا ہے تو وہ نئی دہلی یا مقامی انتظامیہ کی طرف سے جموں و کشمیر میں ایک کے بعد ایک نیا قانون متعارف کرانا ہے یا پھر پہلے سے موجود قوانین میں ترمیم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سارے عمل کو سیاسی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں نے سابقہ ریاست اور اس کے باشندوں کو کمزور کرنے اور اختیارات کم کرنے کی نظر سے دیکھا ہے۔
بعض ناقدین نئے اقامتی قانون اور اراضی کی ملکیت اور خرید و فروخت سے متعلق قانون میں کی گئی ترامیم کو مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کو تبدیل کرنے کی ایک دانستہ کوشش سمجھتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ صرف وادیٔ کشمیر ہی نہیں بلکہ اب لداخ میں بھی پانچ اگست کے اقدامات کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔
نور احمد بابا کہتے ہیں کہ فروری میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر ہونے والے فائر بندی معاہدے کے باوجود پانچ اگست کے اقدامات کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں مزید سرد مہری آئی ہے۔