متحدہ عرب امارات کے وزیر توانائی نے روس کے ساتھ تیل کے اتحاد سے وابستگی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں خام تیل کی قیمتوں میں کئی برسوں کی بلند ترین سطح پر پہنچنے میں ایسے حالات میں مدد ملی ہے جب کہ یوکرین کے خلاف ماسکو کی جنگ نے عالمی منڈیوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اور توانائی اور اجناس کی قیمتوں میں بہت اضافہ کردیا ہے۔
وزیر نے کہا کہ روس روزانہ دس ملین بیرل تیل پیدا کرتا ہےاور وہ گلوبل اوپیک توانائی اتحاد کا ایک اہم رکن ہے۔
متحدہ عرب کے وزیر توانائی سہیل المزورعی نے کہا ہے کہ سیاست کو الگ ر کھ کر دیکھا جائے تو تیل کی اتنی مقدار کی آج بھی ضرورت ہے۔ ہاں اگر کوئی اور دس ملین بیرل تیل روز نہ فراہم کر سکے تو پھر اس کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمیں نظر نہیں آتا کہ اس حوالے سے اس وقت روس کا کوئی نعم البدل موجود ہے۔
سعودی عرب اور روس کی قیادت میں یہ اتحاد تیل کی پیداوار میں اضافے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کے نتیجے میں خام تیل کی قیمتوں میں کمی ہوسکتی ہے جو اس وقت ایک سو ڈالر فی بیرل سے بھی بڑھ چکی ہے۔
امریکہ، یورپی اقوام، جاپان اور دوسرے ملک تیل پیدا کرنے والے خلیجی عرب ملکوں سے تیل کی قیمتیں کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اس ماہ خود متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب گئے اور اس مسئلے کو اٹھایا۔
وزیر توانائی المزروعی نے کہا کہ اوپیک پلس الائنس قائم رہے گا اور ایسی کسی تجویز کو مسترد کردے گا کہ متحدہ عرب امارات یک طرفہ طور پر تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے۔
SEE ALSO: عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤانہوں نے کہا کہ متحد رہتے ہوئے اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اور سیاست کو اس تنظیم سے الگ رکھتے ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ اس بات پر یقین رکھا ہے کہ پیداوار کے بارے میں بہ حیثیت ممالک ہم اپنا فرض ادا کریں، بس سیاست سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔
اوپیک پلس الائنس اس وقت کے ایک معاہدے کے مطابق تیل کی پیداوار میں بتدریج اضافے کے منصوبے پر قائم ہے، جب کرونا کی وبا کے سبب لاک ڈاؤنز اپنے عروج پر تھے اور توانائی کی مِانگ میں کمی کے سبب پیداوار میں بھاری کٹوتی کا یہ معاہدہ کیا گیا تھا۔
دوبئی میں اٹلانٹک کونسل گلوبل انرجی فورم میں المزروعی نے اپنی تقریر میں آئل اینڈ گیس کے شعبے میں بھاری سرمایہ کاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک متحدہ عرب امارات کی سرحدوں کے اندر زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور 2050 تک کاربن گیسوں کا اخراج صفر پر لانے کے وعدے کو پورا کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
نیٹو کے بعض رکن ملکوں کی پالیسیوں پر بظاہر نکتہ چینی کرتے ہوئے وزیر توانائی نے کہا کہ یوکرین میں روس کی جنگ کو، جسے انہوں نے ایک بحران کہا، حل کرنے کے لیے سفارت کاری کی ضرورت ہےنہ کہ وہاں بے تحاشہ ہتھیار بھیجنے کی۔ کیونکہ ان یتھیاروں کا ہدف بنیادی طور عام لو ہی بنتے ہیں۔
یوکرین پر روس کے حملے کے آغاز ہی سے متحدہ عرب امارات کی اس حوالے سے پالیسیاں مختلف رہی ہیں، یہاں تک کہ اس کے وزیر خارجہ نے اس مہینے کے اوائل میں ماسکو کا دورہ بھی کیا اور تعلقات کو بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیالات بھی کیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تیل کی قیمتوں میں اس لیے بھی اضافہ ہوا کہ اوپیک کے ملکوں میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے حملوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور سعودی عرب کہہ چکا ہے کہ وہ ان حملوں کے سبب تیل کی فراہمی میں کمی کے لیے ذمہ دار نہیں ہو گا۔ امریکہ کی جانب سےحوثیوں کی مذمت اور سعودی عرب کے لیے میزائلوں کے نظام کی فراہمی کے باوجود بائیڈن حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان تعلقات بدستور کسی حد تک سرد مہری کا شکار ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ میں گلوبل انرجی سیکیورٹی کے سینئیر مشیر اموس ہوکسٹین انرجی کے مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے سعودی عرب کے کئی دورے کر چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں کے نتیجے میں روس کو اپنے ان نقصانات میں سے کچھ کو پورا کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ جو امریکی تعزیرات کی وجہ سے اسے ہو رہے تھے۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے بر سر عام اوپیک پلس الائنس سے زیادہ تیل پمپ کرنے کے لیے کہنے سے احتراز کیا کہ جمعرات کی میٹنگ سے پہلے گروپ کے لیے ان کے پاس کوئی خاص پیغام نہیں ہے۔
ادھر المزروعی نے بھی ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا کہ اوپیک کے رکن ممالک پیداوار میں کوئی تبدیلی لانے والے ہیں۔ تاہم انہوں نے توجہ دلائی کہ ہم ایسے حالات میں ہیں کہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ اپنی تیل کی پیداوار بڑھاؤ۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)