متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے اسلام آباد کا ایک روزہ سرکاری دورہ موسم کی خرابی کے باعث ملتوی کر دیا ۔ یو اے ای کے صدر نے پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو فون کرکے دورہ مؤخر کرنے کی اطلاع دی جب کہ ان سے کہا کہ وہ جلد دو دن کے دورے پر پاکستان آئیں گے۔
پاکستان حکومت کے مطابق امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان بہاولپور سے صبح ساڑھے سات بجے سے ٹیک آف کے منتظر تھے البتہ شدید بارش اور موسم کی صورتِ حال کے باعث ان کی فلائٹ اسلام آباد کے لیے اڑان نہ بھر سکی۔
یو اے ای کے صدر کی سیکیورٹی ٹیم نے موسم کی خرابی کی وجہ سے انہیں اڑان کی اجازت نہیں دی، جس کے بعد دورۂ اسلام آباد مؤخر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
خلیجی ممالک کے حکمرانوں کی پاکستان میں پرندوں کے شکار میں دلچسپی
خلیج کے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے امرا اور شہزادوں کے لیے پاکستان کے گرم علاقوں میں موسم سرما میں آنے والے پرندوں کا شکار بہت کشش رکھتا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے ماضی میں سپریم کورٹ میں ایک تحریری خط میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ تلور ڈپلومیسی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے۔
تلور کا شمار ان پرندوں میں کیا جاتا ہے جن کی نسل کو بقا کے خطرات لاحق ہیں۔ یہ خوبصورت پرندہ سریوں کے موسم میں ہزاروں میل کی پرواز کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں پہنچتا ہے جہاں سردیاں گزارنے کے بعد وہ واپسی کے سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ لیکن بڑے پیمانے شکار کیے جانے کی وجہ سے ان میں سے کم ہی تلوروں کو واپس جانا نصیب ہوتا ہے۔
SEE ALSO: سندھ میں پرندوں کے شکار پر ایک برس کی پابندی؛ کیا اس بار عرب شکاری نہیں آئیں گے؟مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت نے پنجاب اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں خلیجی ممالک کے امرا کے لیے خصوصی مقامات مختص کیے ہیں جہاں وہ شکار کرنے اور چھٹیاں گزارنے کے لیے آتے ہیں۔
دو دن کے دورۂ اسلام آباد کا وعدہ
پاکستان کی حکومت کی طرف سے جاری بیان کے مطابق امارات کے صدر نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے رابطہ کرکے دورے کی منسوخی پر افسوس کا اظہار کیا۔
بیان کے مطابق شیخ محمد بن زاید النہیان نے یقین دہانی کرائی کہ وہ جلد دو دن کے دورے پر اسلام آباد آئیں گے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ آپ کی سلامتی و حفاظت زیادہ عزیز ہے۔ موسم کی شدت میں پرواز کا خطرہ نہیں لے سکتے۔
اسلام آباد میں تعطیل
یو اے ای کے صدر کا دورہ ملتوی ہونے کے اعلان کے بعد اسلام آباد کی پولیس کے آئی جی اور سیکیورٹی ڈویژن نے شہر میں تعینات نفری ہٹا دی اور دارالحکومت کی تمام سڑکیں ٹریفک کے لیے کھول دی گئیں۔
شیخ محمد بن زاید النہیان کے دورے کے پیشِ نظر وفاقی دارالحکومت میں پیر کو عام تعطیل کا اعلان کیا گیا تھا جب کہ ایمرجنسی سروسز کے علاوہ تمام تعلیمی ادارے اور سرکاری ادارے بند کر دیے گئے تھے۔
SEE ALSO: عرب شہزادوں کو پاکستان میں تلور کے شکار کی اجازت مل گئیشاندار استقبال کی تیاریاں
حکومت نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کے دورے پر شاندار استقبال کا فیصلہ کیا تھا جس کی تمام تیاری مکمل تھی۔
یو اے ای کے صدر کو جے ایف-17 تھنڈر طیاروں کے حفاظتی حصار میں نور خان ایئر بیس پہنچنا تھا، جہاں انہیں 21 توپوں کی سلامی دی جانی تھی۔
مقامی میڈیا کے مطابق وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف اور وفاقی کابینہ کے اہم اراکین ان کے استقبال کے لیے تیار تھے البتہ تمام تیاریاں دھری کی دھری رہ گئیں۔
یو اے ای کے صدر پانچ دن قبل پاکستان پہنچے تھے۔ شیخ محمد بن زید النہیان کے 25 جنوری کو نجی دورے پر آمد پر رحیم یار خان میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہوائی اڈے پر ان کا استقبال کیا تھا۔
دونوں رہنماؤں کے درمیان رحیم یار خان میں ملاقات بھی ہوئی تھی جہاں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کا گھر بھی ہے۔
SEE ALSO: ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس نے ارکان اسمبلی جام کریم اور جام اویس کو بے قصور قرار دے دیااسلام آباد کی تلور ڈپلومیسی
پاکستان میں عرب ممالک سے آنے والے شہزادوں اور دیگر اہم شخصیات کو تلور کے شکار کے لیے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں اور ان لائسنسوں کی مد میں کروڑوں روپے فیس بھی وصول کی جاتی ہے۔
اس لائسنس کے تحت کتنے صحرائی پرندے مارے جانے کی اجازت ہے اور کتنے مارے جاتے ہیں اس حوالے سے کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔
خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے ان امیر اور اہم شخصیات کو باقاعدہ علاقے دیے جاتے ہیں اور شکار کے علاقوں میں انہیں بہت سی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، جن میں مقامی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سیکیورٹی شامل ہوتی ہے۔
ان شخصیات کے ان علاقوں میں بڑے بڑے محل بھی موجود ہیں، جن میں انہیں تمام ضروریاتِ زندگی دستیاب ہوتی ہیں البتہ شکار کے علاقوں میں عرب ثقافت کے مطابق خیمے لگا کر دن اور رات گزارنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
پاکستان حکومت کی طرف سے علاقے الاٹ ہونے اور لائسنسوں کے اجرا کے بعد ضلعی انتظامیہ تمام انتظامات کی نگرانی کرتی ہے۔
مبصرین کے مطابق عرب شخصیات کی ان علاقوں میں موجودگی پر یہاں کے مقامی افراد کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا کیوں کہ اس سے ان کی معیشت بھی بہتر ہوتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک بلوچستان میں موجود کسی علیحدگی پسند گروپ کی طرف سے کسی عرب شخصیت پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
تلور کے شکار کا لائسنس اور قانون کی خلاف ورزی
تلور کے شکار کے لیے وفاقی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جو پرمٹ جاری کیا جاتا ہے اس کے مطابق کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ 10 دن کے لیے شکار کر سکتے ہیں۔
ان 10 دن میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم بلوچستان کے محکمہ تحفظِ جنگلی حیات کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں ایک سعودی شہزادے نے چاغی میں تین ہفتے کی کیمپنگ کے دوران 2100 تلور شکار کیے۔
بعض افراد کا کہنا ہے کہ ان عرب شیوخ کی پاکستان آمد سے پسماندہ علاقوں کے عوام بہت خوش ہوتے ہیں کیوں کہ خلیجی ممالک کی اہم شخصیات کی طرف سے ان علاقوں میں اسکول، اسپتال اور سڑکیں بھی تعمیر کی گئی ہیں۔
’کسی حکمران کو اس شکار کو روکنے کی ہمت نہیں ہوئی‘
خلیجی ممالک کی اہم شخصیات کی پاکستان شکار کے لیے آمد کے حوالے سے سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک عرصے سے صحرا میں پرندوں اور جانوروں کے شکار کے لیے لائسنس دینے کا سلسلہ جاری ہے اور ان ممالک کے امرا نے ان علاقوں میں باقاعدہ اپنی لینڈنگ اسٹرپس یعنی جہاز اتارنے کے مقام بنائے ہوئے ہیں۔
ان کے مطابق اس کی ایک مثال پاکستان میں شمسی ایئر بیس ہے، جہاں پر یو اے ای کی لینڈنگ اسٹرپ تھی اور بعد میں ڈرون حملوں کے لیے اس کو استعمال کیا گیا۔
شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حکمرانوں کی غفلت اور بد عنوانی کی وجہ سے کسی حکمران کو ان علاقوں میں جاری شکار کو روکنے کی ہمت نہیں ہوئی اور ہمیشہ ذاتی فوائد کے حصول کے لیے عرب شخصیات کو خوش کیا گیا اور انہیں باقاعدہ جگہیں دی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے شکار کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
پاکستان کی حکومت کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں عرب حکمران پاکستان کو ہر مشکل موقع پر مدد فراہم کرتے رہے ہیں البتہ اب دنیا بھر میں اقتصادی حالات کے پیش نظر وہ بھی اسلام آباد کی مدد سے کترا رہے ہیں۔
ان کے بقول ’’ہم آج بھی انہیں اس شکار کے ذریعے خوش کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اب ان کی ترجیح اپنے دیے گئے پیسے کی واپسی ہے۔ پاکستان میں مشکل حالات کی وجہ سے اس کی واپسی ان کو بھی مشکل نظر آ رہی ہے۔‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
’پاکستان عرب شخصیات کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتا‘
عرب شخصیات کی پاکستان شکار کے لیے آمد کے حوالے سے تجزیہ کار نجم رفیق نے کہا کہ یہ تعلقات بہت پرانے ہیں۔ عرب شیخ بہت امیر ہیں اور ہمیں بھی ایک عرصہ سے انہیں مراعات دینے کی عادت ہے۔
اسلام آباد کی معاشی مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں یو اے ای نے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کے استحکام کے لیے ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیاہے جب کہ پاکستان کو کچھ بین الاقوامی سرمایہ کاری کی بھی توقع ہے۔
پرندوں کے شکار کے حوالے سے نجم رفیق نے کہا کہ پاکستان میں قانون صرف برائے نام ہے۔ سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔ یہ شہزادے صرف تلور نہیں بلکہ نایاب کالے ہرن اور دیگر جانوروں کا شکار بھی کرتے ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان ان عرب شخصیات کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں رکھتا۔
یو اے ای کے صدر کے دورے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس حالیہ دورے کوبھی دیکھا جائے تو امارات کے صدر کے طیارے نے براہِ راست رحیم یار خان میں لینڈ کیا جب کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم وہاں گئے جہاں ان کی اماراتی صدر سے ملاقات ہوئی۔
ان کے مطابق اب شیخ محمد بن زاید النہیان کو اسلام آباد آنا تھا، جہاں ان کی ملاقاتیں طے تھیں البتہ موسم خراب ہو گیا تو وہ اسلام آباد نہیں آسکے۔
SEE ALSO: بلوچستان میں شکار کے الزام میں سات غیر ملکی گرفتارتلور کے شکار پر پابندی کا معاملہ
پاکستان کی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 2015 میں بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کی تھی۔
جنوری 2016 میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی سربراہی میں بننے والے پانچ رکنی بینچ نے اس پابندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تین رکنی بینچ کے فیصلہ کو ختم کیا تھا۔ بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس پر اختلافی نوٹ بھی لکھا تھا۔
فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس ثاقب نثار نے اس فیصلے میں کہا تھا کہ ہجرت کرنے والے پرندوں سے متعلق اقوامِ متحدہ کا کنونشن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان نسلوں کی افزائش کر کے شکار کیا جا سکتا ہے۔ عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات نے تلور کو اُن پرندوں میں شامل نہیں کیا جن کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا تھا کہ قانون کا جائزہ لے کر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تلور کے شکار پر مستقل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ صوبوں کا اختیار ہے کہ کس پرندے کے شکار پر پابندی لگائیں اور کس پرندے کے شکار کی اجازت دیں۔ عدلیہ اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔