رسائی کے لنکس

ناظم جوکھیو قتل کیس: پولیس نے ارکان اسمبلی جام کریم اور جام اویس کو بے قصور قرار دے دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کراچی میں قتل ہونے والے شہری اور سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ناظم جوکھیو کے قتل میں پولیس نے پانچ ماہ بعد بالآخر چالان جمع کروا دیا ہے، لیکن پولیس نے قتل میں مرکزی ملزمان سمجھے جانے والے قومی اسمبلی کے رکن جام عبدالکریم اور ان کے بھائی رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کو بے قصور قرار دے کر ان کا نام چالان سے خارج کردیا ہے۔

سندھ پولیس کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کو جمع کرائے گئے چالان میں رکن قومی اسمبلی اور رکن سندھ اسمبلی سمیت 13 ملزمان کا نام کیس سے خارج کر دیا ہے۔ کیس میں ایک ملزم نیاز احمد کو مفرور قرار دیا گیا ہے۔ چالان کے مطابق کیس میں پولیس کو مطلوب دو ملزمان پہلے ہی گرفتار ہیں۔ جب کہ چالان منظور ہونے، چالان میں مقتول ناظم جوکھیو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ، فرانزک لیب رپورٹ، ڈی وی آر، مقتول کا جلا ہوا موبائل فون سمیت دیگر اشیاء شامل ہیں۔

اگرچہ عدالت نے ابھی چالان منظور نہیں کیا ہے لیکن تفتیشی افسر سراج لاشاری کے مطابق ناظم جوکھیو کے ورثاء کی جانب سے دائر حلف ناموں کی وجہ سے ان کا نام ملزمان کو فہرست سے نکالا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مقتول کی ہلاکت میں جام اویس اور جام عبدالکریم کا کوئی ہاتھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مقتول کے ورثاء نے اراکین اسمبلی کے خلاف کوئی شواہد نہیں دیے۔

دوسری جانب ناظم جوکھیو قتل کیس میں چالان جمع کرانے میں تاخیر کی وجہ کیس کے چالان کی گئی اسکروٹنی کو قرار دیا جارہا ہے۔

ادھر سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے کافی بحث کی جارہی ہے۔ صحافی مظہر عباس نے رکن قومی اسمبلی کا نام کیس سے خارج کرنے کو شرمناک قرار دیا ہے۔

شواہد اکھٹے کرنے میں کوتاہی کا الزام

کیس کے چالان کی ہونے والی اسکروٹنی میں انکشاف ہوا تھا کہ پولیس نے اس حوالے سے کئی اہم شواہد جمع کرنے میں کوتاہی کی۔ سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ عرب شکاریوں کے بیانات اور جام کریم کا کردار چالان میں واضح نہیں تھا۔ پولیس نے نامکمل رپورٹ دی، مقدمے میں غلط دفعات لگائی گئیں۔ جب کہ پہلے تیار کیے گئے چالان میں یہ بھی واضح نہ کہا گیا کہ قتل کہاں ہوا۔ سرکاری وکیل نے یہ بھی اعتراض اٹھایا کہ تفتیشی افسر واقعہ میں استعمال ہونے والی گاڑی تلاش کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

اسکروٹنی نوٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ 21 فروری کو چالان میں 12 خامیاں دور کرنے کا کہا تھا۔ تفتیشی افسر دو ماہ میں بھی چالان پر پراسیکیوٹر جنرل کے اعتراضات دور کرنے میں ناکام رہا۔ اسی طرح کیس میں کس ملزم کا کیا کردار ہے واضح نہیں بتایا گیا۔ مقتول کی لاش کہاں سے ملی؟ قتل کہاں ہوا؟ جگہ نہیں بتائی گئی ہے۔ چالان میں گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے۔ تفتیشی افسر کو عرب باشندوں کے بیانات ریکارڈ کرنا چاہیے تھے۔ تفتیش کی سربراہی ایس پی یا ڈی ایس پی سے کرانے سے متعلق جے آئی ٹی کی سفارش پر عمل نہیں ہوا ہے۔ کیس میں ایم این اے جام عبدالکریم کا کردار واضح نہیں بتایا گیا۔

وائس آف امریکہ کو ملنے والی دستاویزات میں سرکاری وکیل کا کہنا ہے کہ جام کریم کا کردار واضح نہ ہونے کی وجہ سے کیس میں پراسکیوشن کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ جب کہ ملزم کا کردار واضح نہ ہونے کا فائدہ دیگر ملزمان کو بھی ہوگا۔ تفتیش میں ان سب خامیوں کا فائدہ ملزمان کو ہوگا۔ پراسیکیورٹر جنرل نے اجازت کے بغیر 7 ملزمان کو چھوڑنے پر بھی اعتراض کیا تھا پراسیکیوٹر جنرل نے کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل کرنے کے لیے خط بھی لکھا تھا ،لیکن اس کے باوجود کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل نہیں کیا گیا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ناظم جوکھیو کو سوشل میڈیا پر وائرل اس ویڈیو کے بعد قتل کردیا گیا تھا جس میں انہوں نے ایک عرب شکاری کو اپنے گاوں میں تلور کا شکار کرنے سے روکا تھا۔ اور اس کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ یہ ویڈیو وائرل ونے کے بعد ناظم جوکھیو نے ایک اور ویڈیو میں اپنی جان کے خطرے سے بھی آگاہ کیا تھا۔ لیکن اگلے ہی روز اس کی لاش جام اویس کے فارم ہاؤس سے برآمد ہوئی تھی۔

مقتول کے بھائی افضل جوکھیو کے مطابق جام اویس کے پرسنل سیکرٹری نیاز سالار نے فون کرکے انہیں رکن اسمبلی کے گھر بُلایا۔ وہاں پہنچننے پر جام اویس کے حکم پر ناظم پر بدترین تشدد کیا گیا۔ جس کے باعث وہ ہلاک ہوگیا

معلوم ہوا ہے کہ اس کیس میں محکمہ داخلہ سندھ نے آئی جی سندھ کو کہا ہے کہ کیس کے تفتیشی افسر کو تبدیل کیا جائے۔ یہ تبدیلی پراسیکیوٹر جنرل سندھ کی سفارش پر کی جارہی ہے۔ محکمہ داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ تفتیشی افسر سرکاری وکیل کی اجازت کے بغیر ہی عدالت میں پیش ہوا جس سے اس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔ تاہم کیس پر نظر رکھنے والے وکلاء کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے کیس میں تاخیری حربے اپنائے جارہے ہیں۔ جس کا لامحالہ فائدہ بااثر ملزمان کو مل سکتا ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG