محقیقین کا کہنا ہے کہ جنس کی بنیاد پراسقاط حمل کی مشق کی وجہ سےتارکین وطن گھرانوں کے اندر لڑکیوں اور لڑکوں کی پیدائش کا 50، 50 کا قدرتی تناسب متاثر ہوا ہے
لندن —
ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں آباد بعض نسلی برادریوں میں قبل از پیدائش بچے کی جنس کا انتخاب کرنا عام ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بعض برطانوی نژاد تارکین وطن گھرانوں میں لڑکیوں کی پیدائش کو روکنے اور خاندان میں لڑکوں کی پیدائش کو یقینی بنانےکے لیےغیرقانونی طور پر غیر مولود لڑکی اسقاط کرا دی جاتی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اسقاط حمل کی مشق کےاثرات نسلی گھرانوں میں وسیع پیمانے پر ظاہر ہوئے ہیں جہاں لڑکیوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
برطانوی اخبار ’دی انڈیپینڈنٹ‘ کی تجزیہ رپورٹ ’دی لوسٹ گرل‘ میں نسلی کمیونٹیوں میں بچوں کی پیدائش میں جنسی تفریق سے متعلق ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے سال 2011 کی قومی مردم شماری کےاعداد و شمار کو استعمال کیا گیا ہے۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ جنس کی بنیاد پراسقاط حمل کی مشق کی وجہ سے، تارکین وطن گھرانوں کے اندر لڑکیوں اور لڑکوں کی پیدائش کا 50، 50 کا قدرتی تناسب متاثر ہوا ہے۔
اس رجحان کا اندازہ مردم شماری کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے،جس میں نسلی کمیونٹیز میں لڑکوں کے مقابلے میں1,400 سے 4,700 لڑکیوں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔
گذشتہ روز شائع ہونے والی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے شعبہٴصحت نےجنسی بنیاد پر اسقاط حمل کے شواہد کی چھان بین پر مبنی ایک تحقیقاتی انکوائری شروع کر دی ہے۔
آج جاری ہونے والے ایک اعلان میں شعبہ صحت کے ترجمان نے کہا کہ حالیہ رپورٹ کے حوالے سے امپریل کالج لندن کے محقیقین سے رابطہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، بچوں کی پیدائش کے سالانہ تناسب پر مکمل نظر رکھی جارہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بچے کی جنس کے انتخاب کی بنیاد پر اسقاط حمل قانون کے خلاف ہےاور مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔
تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قومی مردم شماری 2011 کے مطابق، برطانیہ بھر میں کل 190,000 اسقاط حمل کے کیسسز ہوئے جن میں سے10 فیصد اسقاط کے کیسسز حمل کے 13 ہفتے بعد کرائے گئے جب الٹرا ساؤنڈ اسکین سےبچے کی صنفی پیشن گوئی ہوچکی تھی جس کا نتیجہ زیادہ تر99 فیصد درست ثابت ہوتا ہے ۔
ماہرین نے جنسی بنیاد پر اسقاط حمل کےغیرقانونی عمل کو روکنےکے لیے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ حاملہ خاتون کے لیے حمل کے13 ہفتے بعد کےالٹراساؤنڈ اسکین کے نتیجہ میں بچے کی جنس سے آگاہی فراہم کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہیئے۔ اس طرح، حمل کے آخری ایام میں لڑکی کی پیدائش کی خبر ملنے پراسقاط کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
برطانوی اسقاط حمل کے قانون 1967 کے مطابق، اسقاط کو حمل کے 24 ہفتوں کے اندر ایسی صورت میں قانونی تصور کیا جاتا ہے اگر بچے کی وجہ سے ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو یا پھر اندیشہ ہو کہ غیر مولود میڈیکل کنڈیشن کے ساتھ پیدا ہوگا یا پھر ذاتی وجوہات کی بنا پر حمل کو ضائع کروایا جا سکتا ہے۔ لیکن، جنس کی بنیاد پر حمل کو ختم کرنا برطانیہ میں بھی دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح، غیر قانونی فعل قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بعض برطانوی نژاد تارکین وطن گھرانوں میں لڑکیوں کی پیدائش کو روکنے اور خاندان میں لڑکوں کی پیدائش کو یقینی بنانےکے لیےغیرقانونی طور پر غیر مولود لڑکی اسقاط کرا دی جاتی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اسقاط حمل کی مشق کےاثرات نسلی گھرانوں میں وسیع پیمانے پر ظاہر ہوئے ہیں جہاں لڑکیوں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
برطانوی اخبار ’دی انڈیپینڈنٹ‘ کی تجزیہ رپورٹ ’دی لوسٹ گرل‘ میں نسلی کمیونٹیوں میں بچوں کی پیدائش میں جنسی تفریق سے متعلق ڈیٹا اکھٹا کرنے کے لیے سال 2011 کی قومی مردم شماری کےاعداد و شمار کو استعمال کیا گیا ہے۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ جنس کی بنیاد پراسقاط حمل کی مشق کی وجہ سے، تارکین وطن گھرانوں کے اندر لڑکیوں اور لڑکوں کی پیدائش کا 50، 50 کا قدرتی تناسب متاثر ہوا ہے۔
اس رجحان کا اندازہ مردم شماری کے اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے،جس میں نسلی کمیونٹیز میں لڑکوں کے مقابلے میں1,400 سے 4,700 لڑکیوں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔
گذشتہ روز شائع ہونے والی رپورٹ کا نوٹس لیتے ہوئے شعبہٴصحت نےجنسی بنیاد پر اسقاط حمل کے شواہد کی چھان بین پر مبنی ایک تحقیقاتی انکوائری شروع کر دی ہے۔
آج جاری ہونے والے ایک اعلان میں شعبہ صحت کے ترجمان نے کہا کہ حالیہ رپورٹ کے حوالے سے امپریل کالج لندن کے محقیقین سے رابطہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، بچوں کی پیدائش کے سالانہ تناسب پر مکمل نظر رکھی جارہی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بچے کی جنس کے انتخاب کی بنیاد پر اسقاط حمل قانون کے خلاف ہےاور مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔
تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قومی مردم شماری 2011 کے مطابق، برطانیہ بھر میں کل 190,000 اسقاط حمل کے کیسسز ہوئے جن میں سے10 فیصد اسقاط کے کیسسز حمل کے 13 ہفتے بعد کرائے گئے جب الٹرا ساؤنڈ اسکین سےبچے کی صنفی پیشن گوئی ہوچکی تھی جس کا نتیجہ زیادہ تر99 فیصد درست ثابت ہوتا ہے ۔
ماہرین نے جنسی بنیاد پر اسقاط حمل کےغیرقانونی عمل کو روکنےکے لیے دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ حاملہ خاتون کے لیے حمل کے13 ہفتے بعد کےالٹراساؤنڈ اسکین کے نتیجہ میں بچے کی جنس سے آگاہی فراہم کرنے پر پابندی عائد ہونی چاہیئے۔ اس طرح، حمل کے آخری ایام میں لڑکی کی پیدائش کی خبر ملنے پراسقاط کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
برطانوی اسقاط حمل کے قانون 1967 کے مطابق، اسقاط کو حمل کے 24 ہفتوں کے اندر ایسی صورت میں قانونی تصور کیا جاتا ہے اگر بچے کی وجہ سے ماں کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو یا پھر اندیشہ ہو کہ غیر مولود میڈیکل کنڈیشن کے ساتھ پیدا ہوگا یا پھر ذاتی وجوہات کی بنا پر حمل کو ضائع کروایا جا سکتا ہے۔ لیکن، جنس کی بنیاد پر حمل کو ختم کرنا برطانیہ میں بھی دنیا کے بہت سے ملکوں کی طرح، غیر قانونی فعل قرار دیا گیا ہے۔